پیر, جون 2, 2025

پاک بھارت جنگ کے خدشات میں کسی حد تک کمی آنے لگی

پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بادل کسی حد تک چھٹنے لگے ہیں، تاہم یہ اندیشہ ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا کہ مودی سرکار کسی خوش فہمی یا غلط اندازے کے تحت ایسا اقدام نہ کر بیٹھے جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے۔

اہم سوال یہ ہے کہ بھارت میں جنگی جنون کے طبل کی آواز آخر کیسے دھیمی ہوئی؟ اس تناؤ کو کم کرنے میں سب سے نمایاں کردار امریکا نے ادا کیا۔

اگرچہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کو “1500 سال پرانا مسئلہ” قرار دے کر اور یہ کہہ کر کہ “دونوں ممالک خود ہی حل نکالیں”، دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا، مگر سوال یہ بھی پیدا ہوا کہ جو ملک جنگ روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ اتنا بے خبر اور لاتعلق کیسے ہو سکتا ہے؟

امریکا کی طاقت اس کے نظام میں ہے، نہ کہ کسی ایک شخص میں۔ یہی نظام بروقت متحرک ہو کر بحران کو روکنے یا اسے درست کرنے کے لیے عملی اقدامات کرتا ہے۔

اسی نظام کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو فون کر کے زور دیا کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں اور جنوبی ایشیا میں امن قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

مارکو روبیو نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے بھی رابطہ کیا، جہاں انہوں نے پہلگام حملے کی مذمت پر زور دیتے ہوئے یہ مؤقف دہرایا کہ اس حملے میں ملوث عناصر کو ہر صورت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

دونوں رہنماؤں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ مؤقف اختیار کیا جانا چاہیے۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب