اسلام آباد:وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے بتایا ہے کہ موجودہ بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہو رہا ہے، جس کے باعث 118 سے زائد غیر ضروری منصوبے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں ملک کو درپیش معاشی مشکلات کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ میں کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام صحت، تعلیم، پانی، بجلی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بہتری کی توقع رکھتے ہیں، مگر موجودہ وسائل میں ترقیاتی منصوبوں کو پورا کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
اجلاس میں شریک چیف اکانومسٹ ڈاکٹر امتیاز نے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی منصوبوں اور معاشی روڈ میپ پر تفصیلی بریفنگ دی۔ احسن اقبال نے بتایا کہ رواں مالی سال کے لیے ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، تاہم اس رقم میں تمام منصوبے شامل کرنا ممکن نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں کمی ملک کی اقتصادی ترقی، عوامی سہولیات کی فراہمی اور حکومتی اہداف کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ٹیکس چوری کے خاتمے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے قومی سطح پر مربوط مہم چلانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ محدود وسائل کی وجہ سے کم ترجیحی اور غیر فعال 118 سے زائد منصوبے بند کیے جا چکے ہیں اور اب صرف اہم اور قومی نوعیت کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم، سکھر-حیدرآباد موٹر وے، چمن روڈ اور قراقرم ہائی وے (فیز دو) جیسے بڑے منصوبے ملک کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔
احسن اقبال نے اُڑان پاکستان پروگرام کے تحت تمام صوبوں میں ورکشاپس کا انعقاد کرنے اور قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ 2018 میں نئے منصوبے شروع کرنے کا دور تھا، لیکن اب حالات مختلف ہیں اور جاری منصوبوں کو محدود کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی ترقی میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور جو منصوبے شامل نہیں ہو سکے، ان کے لیے معذرت خواہ ہیں۔