بدھ, فروری 12, 2025

اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں میں کیا دلچسپی ہے؟

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل کا شام سے کوئی تنازعہ نہیں ہے، اور اس کے اقدامات شام میں اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہیں۔ ان کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیاں شامی سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو روکنے اور اسرائیل کو ممکنہ خطرات سے بچانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ چند روز قبل اسرائیلی فوج نے گولان کی پہاڑیوں پر ایک غیر فوجی بفر زون سمیت کچھ اہم سرحدی مقامات پر قبضہ کر لیا تھا، جسے اسرائیل نے عارضی طور پر اپنے دفاع کے لیے اٹھایا تھا۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے گولان کی پہاڑیوں پر یہودی آبادی کی تعداد دگنی کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت سے منظوری بھی لے لی ہے۔ گولان کی پہاڑیاں 1967 کی جنگ کے دوران اسرائیل نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا تھا، جو آج بھی عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم، 2019 میں امریکہ نے اس علاقے پر اسرائیل کا حق تسلیم کر لیا تھا۔

گولان کی پہاڑیاں جنوبی شام سے شمال مشرقی اسرائیل تک پھیلی ہوئی ہیں اور اس پر اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے۔ 1967 کی جنگ میں شامی افواج نے ان پہاڑیوں سے اسرائیل پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد اسرائیل نے 1200 مربع کلومیٹر کا رقبہ قبضے میں لے لیا۔ بعد ازاں 1973 کی جنگ میں شامی افواج نے دوبارہ گولان کا قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ناکام رہے۔ اس کے بعد 1974 میں شام اور اسرائیل نے جنگ بندی معاہدہ کیا، جس کے تحت گولان کی سرحدی پٹی کے دونوں طرف سے افواج کا انخلاء ہونا تھا۔

اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں میں خاص دلچسپی اس لیے ہے کہ یہ جغرافیائی طور پر دمشق جیسے اہم شہروں کو دیکھنے کے لیے ایک اہم مقام ہے۔ اس سے اسرائیل کو شامی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ علاوہ ازیں، گولان کا پانی کی فراہمی کے لحاظ سے بھی بڑا اہمیت ہے کیونکہ یہ دریائے اردن میں شامل ہوتا ہے، جو اسرائیل کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

شام نے ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کی شرط رکھی ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں کو واپس کرے، تاکہ وہ بحرِ طبریا کے مشرقی ساحل کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر سکیں۔ اسرائیل کے لیے یہ علاقہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے اہم پانی کے وسائل سے محروم ہو سکتا ہے۔ اس لیے اسرائیل میں عوامی رائے یہی ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کا قبضہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب