شام میں اسد خاندان کے 53 سالہ اقتدار کا خاتمہ صرف 11 دن میں ہوا جب اپوزیشن فورسز نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا۔ یہ واقعہ اس خطے کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور 2011 میں شروع ہونے والی عرب اسپرنگ کے احتجاجی سلسلے کا منطقی انجام سمجھا جا رہا ہے۔
دارالحکومت کی آزادی
27 نومبر کو اپوزیشن فورسز نے دمشق میں داخل ہو کر دارالحکومت کی آزادی کا اعلان کیا۔ اس مہم کی قیادت حیات تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے کی، جن کے ساتھ دیگر اپوزیشن گروپس بھی شامل تھے۔ ان فورسز نے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے معزول کرتے ہوئے شام کو آزاد قرار دیا۔
بشار الاسد کا فرار
رپورٹس کے مطابق، باغیوں کے دمشق میں داخل ہونے کے بعد بشار الاسد اپنے خاندان کے ہمراہ فرار ہو گئے۔ ابتدا میں یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ ان کا جہاز کریش ہو گیا، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ روس پہنچ چکے ہیں، جہاں انہیں اور ان کے خاندان کو سیاسی پناہ دی گئی ہے۔
اپوزیشن کی کامیاب کارروائی
اپوزیشن فورسز نے اپنی مہم کا آغاز ادلب اور حلب کے درمیان فرنٹ لائن سے کیا۔ تین دن کے اندر حلب پر قبضہ کرنے کے بعد انہوں نے حماہ، حمص، اور درعاء جیسے اہم شہروں پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا۔ تاہم، لتاکیہ اور طرطوس جیسے الاسد خاندان کے مضبوط گڑھ ابھی تک اپوزیشن کے قبضے میں نہیں آئے۔
حالات کی نزاکت
شام کی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھی، جس کے باعث حکومت غیر مقبول ہو چکی تھی۔ فوج اور پولیس اہلکار اپنی پوسٹیں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، جبکہ بین الاقوامی مدد بھی بشار الاسد کے لیے محدود ہو گئی تھی۔ روسی افواج یوکرین جنگ میں مصروف ہیں، اور ایران و حزب اللہ اسرائیلی حملوں سے متاثر ہیں، جس کے باعث شامی حکومت کو مطلوبہ امداد نہ مل سکی۔
شامی عوام کا ردعمل
دمشق، حمص، اور دیگر شہروں میں عوام نے باغیوں کی کامیابی پر خوشیاں منائیں۔ لوگوں نے انقلابی پرچم لہرائے، ٹینکوں پر چڑھ کر خوشی کا اظہار کیا، اور حافظ الاسد کے مجسمے گرا دیے۔ مساجد میں دعائیں کی گئیں، جبکہ عوامی مقامات پر جشن کا سماں رہا۔
جیلوں سے قیدیوں کی رہائی
حیات تحریر الشام کے جنگجوؤں نے حکومتی جیلوں کے دروازے کھول کر ضمیر کے قیدیوں کو رہا کر دیا۔ صدنایا جیل میں اس تبدیلی کو “ظلم کے دور کے خاتمے” کے طور پر پیش کیا گیا۔
عبوری حکومت کی تیاری
بشار الاسد کے فرار کے بعد شامی وزیرِ اعظم محمد غازی الجلالی دمشق میں موجود ہیں اور انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ عبوری حکومت کے قیام میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ حیات تحریر الشام کے سربراہ الجولانی نے بھی کہا ہے کہ عوامی ادارے عبوری مدت کے دوران وزیرِ اعظم کی نگرانی میں چلائے جائیں گے۔
آگے کا راستہ
شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد آئندہ حالات کے بارے میں غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تمام فریق تعاون کریں تو شام کے لیے ایک بہتر اور پرامن مستقبل ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم، سیاسی استحکام اور معاشی بحالی کے لیے تمام فریقوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
یہ پیش رفت شام کے لیے ایک نئے باب کا آغاز ہے، لیکن اس کا حتمی انجام ابھی واضح نہیں ہے۔