بدھ, فروری 12, 2025

“کیا ایران پر اسرائیلی حملے کی معلومات جان بوجھ کر افشا ہوئی؟”

امریکی تفتیشی حکام یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حساس امریکی خفیہ دستاویزات، جو ایران پر حملے کے اسرائیلی منصوبے کے بارے میں ہیں، آن لائن کیسے شائع ہوئیں۔ یہ دستاویزات گزشتہ جمعہ کو ایک ٹیلی گرام چینل پر سامنے آئیں، جس میں امریکہ کی جانب سے ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کا جائزہ لیا گیا۔

ان دستاویزات میں سیٹلائیٹ سے حاصل کردہ تصاویر اور دیگر انٹیلیجنس معلومات کا استعمال کیا گیا ہے۔ پیر کے روز، وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جون کربی نے کہا کہ صدر جو بائیڈن اس معاملے پر “گہری تشویش” میں ہیں۔ تاہم، حکام ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کہ آیا یہ دستاویزات جان بوجھ کر لیک کی گئی ہیں یا انہیں ہیکنگ کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔

ایرانی میزائل حملوں کے بعد، اسرائیل تقریباً تین ہفتوں سے ایران پر جوابی حملے کی بات کر رہا ہے۔ ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ یکم اکتوبر کو ہونے والا حملہ 27 ستمبر کو حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی ہلاکت کا جواب تھا۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ دستاویزات میں استعمال ہونے والی ہیڈنگز مستند نظر آتی ہیں، اور اسی طرح کے الفاظ ماضی میں سامنے آنے والی دیگر خفیہ دستاویزات میں بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ ان دستاویزات پر “ٹاپ سیکرٹ” اور “ایف جی آئی” (فارن گورنمنٹ انٹیلیجنس) کی عبارتیں بھی موجود ہیں، جو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ “فائیو آئیز” یعنی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے پانچ ملکی انٹیلیجنس اتحاد کے ساتھ شیئر کی جانے والی تھیں۔

یہ دستاویزات یہ بھی بتاتی ہیں کہ اسرائیل ایران میں کن مقامات پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ جائزہ رپورٹ کی بنیاد 14 اور 15 اکتوبر کو امریکی جی ایڈوانسڈ اسپیشل انٹیلیجنس ایجنسی سے حاصل کردہ معلومات کا تجزیہ ہے۔ اس رپورٹ میں دو ایئر لانچڈ بیلسٹک میزائلوں “گولڈن ہوریزون” اور “راکس” کا ذکر بار بار آیا ہے۔ “راکس” ایک دور تک مار کرنے والا میزائل سسٹم ہے، جبکہ “گولڈن ہوریزون” اسرائیل کے بلیو سپیرو میزائل سسٹم کی نشاندہی کرتا ہے، جس کی رینج تقریباً دو ہزار کلومیٹر ہے۔ ان ہتھیاروں کا استعمال اسرائیل کو اردن جیسے ممالک کی فضائی حدود کے استعمال سے بچنے میں مدد دے گا، یاد رہے کہ ایران پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ کسی بھی حملے کے لیے اگر دوسرے ممالک کی فضائی حدود یا اڈے استعمال کیے گئے، تو وہ انہیں اپنا ہدف سمجھے گا۔

ان لیک ہونے والی دستاویزات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل ایران کو مزید حملوں سے باز رکھنے کے لیے کسی بھی قسم کی جوہری کارروائی کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔ اسرائیل کی درخواست پر امریکی حکومتیں کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کر پائیں کہ ان کے قریبی اتحادی یعنی اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، اور ان دستاویزات میں جوہری ہتھیاروں کا ذکر امریکہ کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔

دستاویزات میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ اسرائیل کب اور کون سے ایرانی اہداف کو نشانہ بنائے گا۔ یہ بھی اہم ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری اور تیل کی تنصیبات پر حملے کی مخالفت کی ہے۔ اس کے علاوہ، پاسدارانِ انقلاب کے عسکری اڈے اور بسیج فورس، جو ایران کے اندر اور باہر مزاحمت کو ختم کرنے میں مصروف ہیں، ان کے حملوں سے بچنے کے امکانات بھی ہیں۔

ایران پر اسرائیلی حملے کی ایک وجہ امریکی خدشات بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ ان کے ملک میں صدارتی انتخابات سے پہلے خطے میں مزید کشیدگی بڑھے۔

یہ ممکن ہے کہ یہ دستاویزات کسی ایسے شخص نے افشاں کی ہوں، جو ایران پر حملے کے اسرائیلی منصوبے کو ناکام بنانا چاہتا تھا۔ ایران کے پاس سائبر جنگ میں بڑی صلاحیتیں موجود ہیں، اس لیے یہ بھی تحقیق کی جا رہی ہے کہ کہیں یہ لیک ہیکنگ کا نتیجہ تو نہیں ہے۔

اگر یہ دستاویزات اصلی ہیں تو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی جاسوسی بھی کرتا ہے، حالانکہ وہ اس کے قریب ترین دفاعی اتحادی ہیں۔ ان دستاویزات کے جائزے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ ایران کے خلاف کسی طویل رینج حملے کا ارادہ رکھتی ہے اور کسی بھی متوقع ایرانی حملے کو روکنے کی تیاری کر رہی ہے۔ مختصر یہ کہ اگر اسرائیل اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرے گا، تو مشرقِ وسطیٰ میں ایک بار پھر شدید کشیدگی کا ماحول پیدا ہو جائے گا۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب