بنگلادیش میں حالیہ پرتشدد مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے معاملے میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی خبر ایجنسیوں کے مطابق، بنگلا دیش کی بین الاقوامی جرائم کی عدالت نے شیخ حسینہ کے ساتھ ساتھ 45 دیگر افراد کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے ہیں، جن میں ان کے قریبی ساتھی بھی شامل ہیں۔
یہ وارنٹ اس وقت جاری کیے گئے جب جولائی اور اگست میں بنگلا دیش میں طلبا تنظیموں کے مظاہروں کے دوران کئی افراد کی جانیں گئیں اور درجنوں زخمی ہوئے۔ مظاہرین نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سخت احتجاج کیا، جس نے ملک میں عدم استحکام کی ایک نئی لہر پیدا کر دی۔ ان مظاہروں کی شدت اس قدر بڑھ گئی کہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو اپنی حکومت کی بقاء کے لیے استعفیٰ دینا پڑا۔ بعد ازاں، انہوں نے بھارت کی طرف پناہ لی۔
مظاہروں کے بعد بنگلا دیش میں ایک نئی عبوری حکومت قائم کی گئی، جس کی قیادت نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس نے کی۔ یہ حکومت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ملک کی سیاسی صورتحال کس قدر نازک ہو چکی ہے، اور عوام میں عدم اعتماد کی لہر کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس صورتحال نے بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے، جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت کی کارروائیوں پر تنقید کی ہے۔ بنگلا دیش کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک اہم موڑ ہے، اور دیکھنا یہ ہوگا کہ مستقبل میں یہ وارنٹ اور مظاہرے ملکی سیاست پر کیا اثر ڈالیں گے۔ شیخ حسینہ واجد اور دیگر افراد کی گرفتاری کی صورت میں بنگلا دیش کی سیاسی منظرنامے میں مزید تبدیلیاں ممکن ہیں۔