غزہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس برطانیہ، فرانس، اور الجزائر کی درخواست پر منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں عالمی رہنماؤں نے غزہ میں جاری انسانی بحران کی سنگینی پر تشویش کا اظہار کیا۔
اجلاس کے دوران، امریکی سفیر نے غزہ میں اسرائیل کی فاقہ کشی کی پالیسی کو نہ صرف خوفناک قرار دیا بلکہ اس کے بین الاقوامی اور امریکی قوانین کے تحت سنگین مضمرات کی نشاندہی بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال انسانی ہمدردی کی بنیادوں کے خلاف ہے اور اس میں فوری تبدیلی کی ضرورت ہے۔
امریکی سفیر نے زور دیا کہ خوراک اور دیگر امداد کو فوری طور پر غزہ میں پہنچانا ضروری ہے اور انسانی امداد کی ترسیل کے لیے وہاں مناسب وقفے فراہم کیے جانے چاہئیں۔
اقوام متحدہ کی قائم مقام سربراہ جوائس مسویا نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ غزہ کی صورتحال ناقابل برداشت ہو چکی ہے اور امدادی اداروں کو رسائی نہیں دی جارہی، جو انسانی بحران میں مزید شدت کا باعث بن رہا ہے۔
فلسطین کے مستقل مندوب نے کہا کہ فلسطینی اور لبنانی عوام اسرائیل کی جانب سے دی گئی چھوٹ کی بھاری قیمت چکاہ رہے ہیں، اور انہوں نے اسرائیلی حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہوئے ان کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا۔
چینی مندوب نے اس موقع پر کہا کہ امریکا نے اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل کو 17 ارب ڈالر سے زائد کی فوجی امداد فراہم کی ہے۔ انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ دو ریاستی حل کے امکانات کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں اور غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے۔
اجلاس کے دوران، برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ اقوام متحدہ کے ادارے انروا کو غزہ میں امداد فراہم کرنے کی اجازت دے۔ اس اجلاس میں شریک اسرائیلی سفیر نے یہ دعویٰ کیا کہ حماس انسانی ہمدردی کی صورتحال کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، جس سے مسئلے کی پیچیدگی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
یہ اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے پر متحد ہے اور فوری اقدامات کی ضرورت کو سمجھتی ہے۔