اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حال ہی میں ایران پر حملے کے لیے مخصوص اہداف کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل کی جانب 400 بیلسٹک میزائل فائر کیے، جس کے نتیجے میں پورے اسرائیل میں سائرن بجنے لگے اور شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق، نیتن یاہو کی جانب سے یہ اقدام ایران کی جارحیت کے جواب میں کیا گیا ہے۔ اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کارروائی کی اجازت دی ہے، تاہم، ابھی تک ان اہداف کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ آیا اسرائیل ان اہداف میں سے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنائے گا یا نہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی حکومت نے اس کارروائی کے آغاز کے لیے کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں کیا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اسرائیل اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور ممکنہ طور پر کوئی متوازن فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب خطے میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، اور اسرائیل اور ایران کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے بار بار ایران کے ایٹمی پروگرام اور اس کے علاقے میں اثر و رسوخ کو اپنے لیے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں، یہ ممکنہ حملہ ایران کے خلاف اسرائیلی حکمت عملی کا ایک حصہ ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر، بین الاقوامی برادری کی نظریں اس جانب مرکوز ہیں کہ آیا اسرائیل واقعی اپنے اہداف کو نشانہ بنائے گا یا پھر یہ محض ایک دھمکی ہے جو ایران کو اپنے اقدامات پر روکنے کے لیے دی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کی نوعیت اور اس کے ممکنہ اثرات کا بھی اندازہ لگانا ضروری ہے۔