لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللّٰہ نے اپنے سربراہ حسن نصر اللّٰہ کی شہادت کی تصدیق کی ہے، جو حالیہ دنوں میں ایک اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں ہوئی۔ یہ حملہ بیروت میں کیا گیا، جہاں اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ نصر اللّٰہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ حزب اللّٰہ کی جانب سے اس تصدیق کے ساتھ ہی علاقے میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے یہ بھی کہا کہ حزب اللّٰہ کے سینئر رہنما علی کرکی بھی اس فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق، اسرائیل نے ایک ہی وقت میں 15 میزائل داغے، جس کے نتیجے میں بیروت میں کئی عمارتیں تباہ ہو گئیں اور انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ 6 افراد ہلاک ہوئے اور 91 زخمی ہو گئے، جس نے اس علاقے میں حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔
حسن نصر اللّٰہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بم باری کے دوران ایک ایسی عمارت میں رہائش پذیر تھے جو زمین کی 14 منزلیں نیچے واقع تھی۔ اس حملے میں ان کی بیٹی زینب نصر اللّٰہ کی بھی شہادت کا دعویٰ کیا گیا ہے، مگر حزب اللّٰہ نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
اسرائیل نے اس تازہ کارروائی میں حزب اللّٰہ کے میزائل یونٹ کے کمانڈر محمد علی اسماعیل اور ان کے نائب حسین احمد اسماعیل کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کیا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان کی کارروائیاں حزب اللّٰہ کے اسٹریٹجک اہداف، جیسے ہتھیاروں کی تیاری، گودام اور کمانڈ سینٹرز کو نشانہ بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
دوسری جانب، حزب اللّٰہ نے بھی اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ انہوں نے رات گئے 65 راکٹ فائر کیے، جس سے اسرائیلی سرزمین پر کئی مقامات پر آگ لگ گئی اور خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو گئی۔
اس صورتحال کے پیش نظر، اسرائیلی شہر تل ابیب میں حملوں کے خطرے کے پیش نظر الرٹ جاری کر دیا گیا ہے، اور فضائی دفاعی نظام کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔
ادھر یمنی فوج نے بھی بحیرۂ احمر میں 3 امریکی جنگی جہازوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ترجمان یمنی افواج کا کہنا ہے کہ یہ حملہ تین امریکی ڈسٹرائیرز پر کیا گیا ہے، جس سے خطے میں تناؤ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو بیروت میں ہونے والے حملے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا اور نہ ہی اس میں کوئی شراکت داری تھی۔ انہوں نے پینٹاگون کو ہدایت کی ہے کہ وہ خطے میں امریکی فوجی پوزیشن کا جائزہ لے اور ضرورت کے مطابق ایڈجسٹمنٹ کرے، تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹا جا سکے۔ یہ حالات ایک بار پھر عالمی سطح پر کشیدگی کو بڑھا رہے ہیں اور اس علاقے میں امن کے لیے چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔