وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے جیو نیوز کے پروگرام ‘نیا پاکستان’ میں گفتگو کرتے ہوئے اہم انکشاف کیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے پاس ٹیکس ریٹرنز کے آڈٹ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ان کا یہ بیان ملک کے ٹیکس نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے اور اس حوالے سے سنجیدہ اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معاشی استحکام اور سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کاروں کو اپنا منافع بیرون ملک منتقل کرنے کی اجازت دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ملک میں معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوتی اور سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا، کوئی بھی یہاں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔
پروگرام کے دوران 11 فیصد شرح سود پر 600 ملین ڈالر کے مہنگے کمرشل قرض کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر، وزیر مملکت کا موقف تھا کہ یہ قرض عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان پر اعتماد کا مظہر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے آئی ایم ایف کے فریم ورک کے ساتھ آگے بڑھنا ہے تو کیا ہمیں ہار مان لینی چاہیے اور ملک کو دیوالیہ ہونے دینا چاہیے؟ ان کے مطابق، یہ قرضہ حاصل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی ادارے پاکستان کو دیوالیہ نہیں ہونے دینا چاہتے اور اس کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، انہوں نے ایف بی آر کی صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ادارہ ٹیکس ریٹرنز کے آڈٹ میں ناکام ہو چکا ہے اور اسے بہتر بنانے کی فوری ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، ملکی معیشت کے لیے اس قسم کی بنیادی اصلاحات لازمی ہیں تاکہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری آ سکے۔