لاہور ہائیکورٹ میں پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف دائر ایک اور درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 5 مارچ تک جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے اس درخواست کو اسی نوعیت کی دیگر درخواستوں کے ساتھ یکجا کر کے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔
جسٹس فاروق حیدر نے درخواست پر سماعت کی، جہاں درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کی متعدد شقیں آئین سے متصادم ہیں، لہذا اس معاملے میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری ہونا چاہیے۔ دورانِ سماعت جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ عدالتی نظیر پر مبنی ہے، کوئی باقاعدہ قانونی اصول نہیں۔
یہ درخواست اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد بچھر اور دیگر افراد کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے دائر کی گئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 آئین کے آرٹیکل 19 اے کی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ اس قانون میں “فیک نیوز” کی کوئی واضح تعریف نہیں دی گئی، جس کے باعث ہر خبر کو جعلی قرار دے کر سیاسی بنیادوں پر کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اپنایا کہ اس قانون کے تحت صحافیوں کو اپنے ذرائع ظاہر کرنے پر مجبور کیا جائے گا، جو کہ آزادیِ صحافت کے اصولوں کے منافی ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کو آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم کیا جائے اور حتمی فیصلے تک اس ایکٹ کے تحت ہونے والی تمام کارروائیوں کو روکا جائے۔