منگل, فروری 11, 2025

قدیم یورپیوں کا فتح کا جشن منانے کا وحشیانہ طریقہ، جنگجو دشمنوں کے دماغ کھاتے تھے!

پولینڈ میں واقع ایک قدیم غار سے دریافت ہونے والے فوسلز نے حیران کن انکشافات کیے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 18,000 سال قبل یورپ میں جنگ کے دوران دشمنوں کے دماغ کھانے کی رسم عام تھی۔ ماہرین کے مطابق، یہ عمل ممکنہ طور پر جنگ میں فتح کا جشن منانے یا کسی مخصوص مذہبی و ثقافتی رسم کا حصہ تھا۔

یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے Scientific Reports میں شائع ہوئی، جس میں قدیم یورپی تہذیب “مگڈالینین” کے تدفین کے طریقوں اور روایات پر نئی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مگڈالینین ثقافت یورپ میں آخری برفانی دور کے اختتام پر موجود تھی اور اس کے افراد پیچیدہ شکار اور سنگی اوزار بنانے میں مہارت رکھتے تھے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ قدیم انسانی معاشروں میں آدم خوری کا رجحان مختلف وجوہات کی بنا پر پایا جاتا تھا۔ کچھ اوقات یہ مذہبی یا رسمی مقاصد کے تحت کیا جاتا تھا، جبکہ بعض حالات میں شدید بھوک یا قحط کے دوران اس کا سہارا لیا جاتا تھا۔ تاہم، پولینڈ کے مسزائیکا غار میں ملنے والی درجنوں ہڈیوں کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر ایسے نشانات موجود ہیں جو آدم خوری کے واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

یہ فوسلز 19ویں اور 20ویں صدی کے دوران کی گئی کھدائیوں میں دریافت کیے گئے تھے، مگر 1960 کی دہائی میں ان پر تفصیلی تحقیق کا آغاز ہوا۔ اب، جدید سائنسی تجزیے نے تصدیق کی ہے کہ یہ ابتدائی یورپی باشندے بعض اوقات جنگ میں مارے جانے والے دشمنوں کے دماغ کھانے کی رسم ادا کرتے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت قدیم انسانی برادریوں کے طرز زندگی، جنگی حکمت عملیوں اور روایات کو سمجھنے میں اہم پیشرفت ثابت ہوسکتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مگڈالینین دور کے لوگ اپنی جنگی فتوحات کو مختلف رسم و رواج کے ذریعے مناتے تھے، جن میں آدم خوری بھی شامل تھی۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب