نئی دہلی میں امریکی سفارتخانے میں پیش آنے والے ایک انوکھے واقعے نے سوشل میڈیا پر نئی بحث چھیڑ دی۔ ایک بھارتی شہری کا B1/B2 ویزا صرف 40 سیکنڈ کے مختصر انٹرویو کے بعد مسترد کر دیا گیا، جس پر اس نوجوان نے سچ بولنے کے نتائج پر سوال اٹھا دیا۔
درخواست دہندہ، جس نے “nobody01810” کے نام سے ریڈٹ پر اپنی کہانی شیئر کی، کا کہنا ہے کہ ویزا انٹرویو کے دوران اس سے تین بنیادی سوالات پوچھے گئے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ امریکا جانے کی غرض کیا ہے؟ دوسرے سوال میں اس کی بین الاقوامی سفر کی تاریخ دریافت کی گئی، جبکہ تیسرے سوال میں پوچھا گیا کہ کیا اس کا کوئی دوست یا رشتہ دار امریکا میں موجود ہے؟
درخواست دہندہ کے مطابق اس نے تمام جوابات ایمانداری سے دیے۔ اس نے بتایا کہ وہ فلوریڈا میں چھٹیاں گزارنے جا رہا ہے، اس سے قبل اس نے کبھی بیرونِ ملک سفر نہیں کیا اور اس کی گرل فرینڈ امریکا میں رہتی ہے۔
لیکن ان سیدھے سادے اور سچائی پر مبنی جوابات کے فوراً بعد، انٹرویو لینے والے افسر نے 214(b) سیکشن کے تحت اس کی ویزا درخواست مسترد کر دی۔ یہ سیکشن اس صورت میں لاگو ہوتا ہے جب درخواست دہندہ یہ ثابت نہ کر سکے کہ وہ امریکا کا سفر مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹنے کا پکا ارادہ رکھتا ہے۔
ریڈٹ پر پوسٹ میں نوجوان نے سوال کیا کہ کیا اس کی ایمانداری ہی اس کے ویزا مسترد ہونے کی اصل وجہ بنی؟ کئی صارفین نے تبصرہ کرتے ہوئے اسے “کلاسک ریجیکشن کیس” قرار دیا اور کہا کہ بغیر کسی ٹریول ہسٹری اور گرل فرینڈ کا ذکر کرنا، ویزا آفیسر کو قائل کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجہ ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی ویزا قوانین کے مطابق، درخواست گزار کو لازمی طور پر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس کے اپنے ملک سے مضبوط تعلقات ہیں، جیسے مستقل نوکری، جائیداد یا قریبی خاندانی رشتے، تاکہ امیگریشن حکام کو یقین ہو کہ وہ امریکا میں مستقل سکونت کا ارادہ نہیں رکھتا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق اگر کوئی ویزا مسترد ہو جائے تو درخواست دہندہ مزید شواہد کے ساتھ دوبارہ اپلائی کر سکتا ہے، تاہم جب تک حالات میں نمایاں تبدیلی نہ آئے، دوبارہ انکار کا خدشہ بھی برقرار رہتا ہے۔