راولپنڈی: پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام دوسرا کھلا خط لکھ دیا، جس میں انہوں نے جیل میں اپنے ساتھ ہونے والے مبینہ ناروا سلوک اور عدالتی دباؤ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
یہ خط عمران خان کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیا گیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ان کا پہلا خط ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اور فوج و عوام کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لیے لکھا گیا تھا، تاہم اسے غیر سنجیدگی سے مسترد کر دیا گیا۔ انہوں نے خود کو پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت کا سربراہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ ملک کا نام عالمی سطح پر روشن کیا ہے، اور ان کی زندگی، آمدن اور سیاسی جدوجہد سب کے سامنے ہے۔
عمران خان نے خط میں جیل میں اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر روشنی ڈالتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اڈیالہ جیل کے سابق سپرنٹنڈنٹ اکرم کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کیونکہ وہ قانون پر عمل پیرا تھے۔ مزید برآں، انہیں موت کی چکی میں رکھا گیا، 20 دن تک مکمل لاک اپ میں رکھا گیا جہاں سورج کی روشنی تک نہیں پہنچتی تھی، اور 5 دن تک ان کے سیل کی بجلی بند رہی، جس کے باعث انہیں مکمل اندھیرے میں گزارا کرنا پڑا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ جیل انتظامیہ کی جانب سے ان کے ورزش کے سامان اور ٹی وی تک رسائی پر پابندی لگا دی گئی، اور انہیں اخبارات اور کتابیں تک فراہم نہیں کی جاتیں۔ عدالتی احکامات کے باوجود انہیں اپنے بیٹوں سے صرف تین مرتبہ بات کرنے دی گئی، جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے۔
عمران خان نے اپنے خط میں عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کے الزامات بھی لگائے، اور کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام پر قبضہ کیا گیا تاکہ من پسند فیصلے لیے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک جج کو ان کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ اس کا بلڈ پریشر پانچ بار بڑھا اور اسے جیل اسپتال منتقل کرنا پڑا۔
عمران خان نے اس خط میں اپنی رہائی اور بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا، اور کہا کہ عوام کی اکثریت ان کے مؤقف کی حمایت کرتی ہے۔