واشنگٹن: ایک وفاقی عدالت نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو عدالتی محاذ پر بڑا جھٹکا دیتے ہوئے یو ایس ایڈ کے ہزاروں ملازمین کو برطرف کرنے اور پیدائشی حق شہریت کے خاتمے سے متعلق احکامات پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی ڈسٹرکٹ جج کارل نکولس نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے پر عملدرآمد معطل کر دیا جس کے تحت یو ایس ایڈ کے ہزاروں بیرون ملک مقیم ملازمین کو صرف 30 دن کی انتظامی چھٹی دے کر ان کے خاندانوں کو سرکاری اخراجات پر امریکا واپس منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ عدالت نے اس اقدام کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کو غیر ضروری مالی اور انتظامی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب، سیئٹل میں ایک وفاقی جج نے صدر ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کو غیر معینہ مدت تک معطل کر دیا جس میں پیدائشی شہریت کے قانون کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ آئین کے خلاف ہے اور ٹرمپ انتظامیہ “قانون کی حکمرانی کو کمزور کرکے پالیسی گیم کھیل رہی ہے۔”
یہ عدالتی حکم میری لینڈ میں جاری کیے گئے اسی نوعیت کے ایک اور فیصلے کے بعد سامنے آیا، جس میں عدالت نے ٹرمپ کے امیگریشن کریک ڈاؤن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔
سی این این کے مطابق، سیئٹل میں ہونے والی سماعت میں جج نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے لیے قانون کی حکمرانی محض ایک رکاوٹ بن چکی ہے، جسے وہ اپنی پالیسیوں اور سیاسی مفادات کے لیے نظر انداز کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عدالتی فیصلے ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف دوسرا بڑا قانونی دھچکا تصور کیے جا رہے ہیں۔