وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس فارم کو سادہ بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے تاکہ ان پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ یہ بیان انہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے دوران دیا، جس کی صدارت سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کی۔
محمد اورنگزیب نے اجلاس میں کہا کہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ درمیانی مدت کے پروگرام میں شامل ہے، اور فروری میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے مالی سال میں پالیسی کو ایف بی آر سے علیحدہ کر دیا جائے گا تاکہ تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ نہ پڑے اور اس کے لیے مختلف اقدامات کیے جائیں گے۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ 60 سے 70 فیصد افراد پر سپر ٹیکس عائد نہیں کیا گیا اور اس طبقے کے لیے ٹیکس فارم کو سادہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرمایہ کاروں کو دس سے دس سال کا روڈ میپ فراہم کیا جائے گا تاکہ ان کی سرمایہ کاری میں آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔
سینیٹر محسن عزیز نے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ 1978 سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، اور اس وقت بھی اسمگلنگ کا مسئلہ موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی ایف بی آر کے فارم اتنے پیچیدہ ہیں کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی انہیں بھرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
ایف بی آر حکام نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ رواں مالی سال میں ٹیکس وصولیوں میں کمی آئی ہے، جو کہ مہنگائی میں کمی اور درآمدات میں کمی کے باعث ہے۔ اس کے علاوہ، اس سال انکم ٹیکس فائلر کی تعداد 40 لاکھ ہو گئی ہے، جو کہ گزشتہ سال 20 لاکھ تھی۔
یہ اقدامات حکومت کی جانب سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہیں کہ ٹیکس کے عمل کو آسان بنایا جائے اور اس سے تنخواہ دار طبقے کو کم سے کم پریشانی ہو۔