برطانوی حکومت کے وزرا نے سول سرونٹس کے اس مشورے کو مسترد کر دیا ہے جس میں انتہا پسندی کی تعریف کو وسیع کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس مشورے میں کہا گیا تھا کہ انتہا پسند ہندو قوم پرست، خالصتان کی حمایت کرنے والے سکھ انتہا پسند، انتہائی بائیں بازو کے افراد، سازشی نظریات پھیلانے والے لوگ، خواتین کے خلاف تعصب رکھنے والے مرد اور انتہائی بدتمیز رویہ رکھنے والے افراد کو بھی انتہا پسندوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
حکومت کی موجودہ تعریف کے مطابق انتہا پسندی وہ نظریات ہیں جو تشدد، نفرت یا عدم برداشت کو فروغ دیتے ہیں اور جن کا مقصد دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کو تباہ کرنا یا پارلیمانی جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
ہوم آفس کے وزیر، ڈین جارویس نے اس تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی انتہا پسندوں کے بعد انتہائی دائیں بازو کے افراد ہمارے لیے سب سے بڑے خطرات کا باعث ہیں۔ ایم آئی فائیو کے ڈائریکٹر، کین میک کیلی نے اکتوبر میں کہا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی ہماری 50 فیصد کوششیں اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف ہیں جبکہ 25 فیصد انتہائی دائیں بازو کے افراد کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں۔
وزیر اعظم سر کیر اسٹارمر نے کہا کہ ان کی حکومت انتہا پسندی کی تمام اقسام سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے غور کر رہی ہے اور اس بات پر توجہ مرکوز کر رہی ہے کہ اس خطرے سے کس طرح مؤثر طریقے سے نمٹا جائے۔ تاہم، حکومت کی جانب سے اس تجویز کو مسترد کیے جانے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکومت موجودہ تعریف پر قائم رہے گی، جس میں صرف تشدد اور نفرت پھیلانے والے عناصر کو انتہا پسند قرار دیا جائے گا۔