مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ حکومت نے مذاکرات میں پی ٹی آئی کی ڈیمانڈز پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن نے مذاکراتی عمل کو خود سبوتاژ کر دیا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مذاکراتی کمیٹی بدستور 31 جنوری تک قائم رہے گی، اور اگر اپوزیشن دوبارہ بات چیت شروع کرنا چاہے تو حکومت تیار ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے مطالبات پر حکومت نے 28 تاریخ کو جواب دینا تھا، لیکن اپوزیشن نے 23 تاریخ کو ہی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کے مطابق اپوزیشن نے مذاکرات ختم کرنے کے لیے مختلف بہانے بنائے اور اس عمل کو جان بوجھ کر سبوتاژ کیا۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی میں حکومتی اتحادیوں کی شمولیت اور مصروفیات کے باوجود تمام مطالبات کو اعلامیے میں شامل کرنے کی پیشکش کی گئی تھی، مگر پی ٹی آئی نے اپنی ترجیحات بدل لیں۔ عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کے جواب کے لیے 7 دن کا وقت دیا تھا، لیکن اپوزیشن نے کوئی تعاون نہیں دکھایا۔
سینیٹر نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکرات کا عمل عملاً ختم ہو چکا ہے، تاہم کمیٹی اس دوران قائم رہے گی، اور اگر اپوزیشن سنجیدگی سے واپس آنا چاہے تو حکومت جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے وزیرِاعظم، فوج اور جمہوری عمل پر تنقید کرکے ماحول خراب کیا، جس کی وجہ سے اب کوئی پہل حکومت کی جانب سے نہیں ہوگی۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹی کو تحلیل کرنے کا اختیار وزیرِاعظم کے پاس ہے اور وہی اس بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے۔