بدھ, فروری 12, 2025

26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر نوٹسز جاری

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے اس اہم کیس کی سماعت کی۔ اس دوران، درخواست گزاروں نے فُل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے نوٹسز جاری کیے۔

وکیل فیصل صدیقی نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف ایک فُل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے، تاہم جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فُل کورٹ بنانا فی الحال ممکن نہیں کیونکہ ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہوتی ہے، اور اس وقت تشکیل شدہ آئینی بینچ میں موجود ججز ہی اس کیس کی سماعت کریں گے۔

سماعت کے دوران درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم اختیارات کی تقسیم کے اصولوں کے خلاف ہے اور ایوان میں مکمل نمائندگی کی کمی تھی۔ وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ 26ویں ترمیم پر ووٹنگ دستیاب ممبران نے کی تھی، جب کہ سینیٹ کے کچھ ممبران کے انتخابات ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئینی ترمیم کے لیے ایوان میں تمام صوبوں کی نمائندگی مکمل ہونی چاہیے تھی۔ وکیل صلاح الدین نے بھی اس بات پر زور دیا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، اور اس بات کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ ارکان اسمبلی کس حد تک آزاد تھے۔

کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے، اور اس موقع پر عدالت نے فُل کورٹ کے حوالے سے مزید مشاورت کے لیے چیف جسٹس سے رجوع کرنے کی تجویز دی۔ اس معاملے کی آئندہ سماعت پر یہ اہم سوالات حل ہونے کی امید ہے، جس کا اثر آئینی ترمیم پر پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب