اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے ڈی چوک احتجاج کیس میں گرفتار 30 ملزمان کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکہ نے کیس کی سماعت کی، جہاں ملزمان کے وکیل انصر کیانی اور پراسیکیوٹر اقبال کاکڑ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت، ملزمان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا الزام ہے، جو قانونی طور پر صرف خصوصی افسر کی جانب سے درج کرایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج ہوا، جس میں ان کے مؤکلین کو شامل کیا گیا ہے۔
جج افضل مجوکہ نے دورانِ سماعت وکیل سے سوال کیا کہ ملزمان کب سے قید میں ہیں اور دفعہ 188 کے تحت سزا کی مدت کیا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ دفعہ 188 کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا ایک ماہ کی ہے اور ان کے مؤکل 26 نومبر سے جیل میں ہیں۔ جج نے ریمارکس دیے کہ اگر سزا کی مدت ایک ماہ ہے تو ضمانت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں، لیکن قانون میں ترمیم کا معاملہ بھی دیکھنا ہوگا۔ وکیل نے کہا کہ ایسی کوئی ترمیم موجود نہیں ہے۔
پراسیکیوٹر اقبال کاکڑ نے عدالت کو بتایا کہ احتجاج کے دوران دفعہ 144 نافذ تھی اور ریاست کو دھمکیاں موصول ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج اس وقت ہوا جب دوسرے ملک کا وزیرِاعظم پاکستان کے دورے پر تھا، اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔ پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا، پی ٹی آئی کی تاریخ احتجاجی مظاہروں سے بھری پڑی ہے اور وہ ہر ماہ احتجاج کی کال دیتے ہیں۔
عدالت نے دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔