اسلام آباد: ایف بی آر نے ملک میں سالانہ 7 ہزار ارب روپے کے ٹیکس گیپ پر قابو پانے اور ٹیکس چوری کی روک تھام کے لیے اضافی عملہ اور وسائل کی درخواست کر دی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ٹیکس لیکیج کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے کے لیے فیلڈ آپریشنز اور انفورسمنٹ کو مزید مضبوط بنایا جائے گا، تاہم ملک بھر میں موجودہ 25 ٹیکس دفاتر ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔
ایف بی آر حکام کے مطابق ٹیکس مشینری کو حاصل ہونے والے وسائل محدود ہیں، جس کی وجہ سے ٹیکس کی مکمل وصولی اور نگرانی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس آپریشنز پر مجموعی ریونیو کا صرف 0.44 فیصد خرچ ہوتا ہے، جب کہ بھارت میں یہ شرح 1.5 فیصد تک ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسائل کی کمی ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے میں بڑی رکاوٹ ہے۔
ادارے کے مطابق ملک کے تمام اضلاع میں ٹیکس امور کی موثر نگرانی کے لیے خاطر خواہ سہولتیں دستیاب نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کئی شعبے ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے کے باوجود مکمل ریونیو دینے سے قاصر ہیں۔ ایف بی آر نے نشاندہی کی کہ چینی، سیمنٹ، تمباکو اور کھاد جیسے بڑے صنعتی شعبوں کی نگرانی کے لیے محدود وسائل موجود ہیں، اور صرف چند گاڑیاں اس کام کے لیے مختص ہیں۔
مزید برآں، حکام نے بتایا کہ پنجاب ریونیو اتھارٹی کا 2023-24 کے لیے سالانہ ٹیکس ہدف 240 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا، جب کہ اس کے ملازمین کو ایف بی آر کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ تنخواہیں اور مراعات حاصل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایف بی آر کو مطلوبہ وسائل فراہم نہ کیے گئے تو ٹیکس وصولیوں میں بہتری کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے، اور ملک میں جاری ٹیکس چوری پر قابو پانے میں مزید وقت لگ سکتا ہے۔