برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی امیگریشن کے معاملے پر شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہو گئی ہے۔ اس تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب پارٹی کی نئی قیادت اور پرانے رہنماؤں کے بیچ امیگریشن پالیسی کے حوالے سے مختلف موقف سامنے آئے۔
ٹوری پارٹی کی سربراہ کیمی بیڈنوک نے اپنی شیڈو فارن سیکریٹری ڈیم پریتی پٹیل کے حالیہ بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی کنزرویٹو حکومتوں نے امیگریشن کے معاملے میں جو غلطیاں کیں، ان کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔ کیمی بیڈنوک نے کہا کہ وہ ماضی کی پالیسیوں کو دوبارہ دہرانا نہیں چاہتیں اور اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ امیگریشن کی تعداد کو قابو میں رکھنا ایک چیلنج ثابت ہوا ہے۔
دوسری جانب، ڈیم پریتی پٹیل نے ایک انٹرویو میں کنزرویٹو حکومت کی امیگریشن پالیسی کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ کے بعد دنیا بھر سے امیگریشن میں اضافہ ہوا، اور یہ وہ افراد ہیں جو برطانیہ کی معیشت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ امیگریشن کی سطح 1.2 ملین تک پہنچنا توقع سے زیادہ تھا اور کہا کہ ماضی میں برطانوی شہریوں کی تربیت پر مزید توجہ دینی چاہیے تھی۔
اس بیان پر کیمی بیڈنوک کے ترجمان نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ نئی قیادت امیگریشن پالیسی کی ناکامی کا اعتراف کرے گی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ امیگریشن کی تعداد ابھی بھی بہت زیادہ ہے اور پارٹی اس پر قابو پانے کے لیے ایک سخت حد (ہارڈ کیپ) پر کام کر رہی ہے۔
ڈیم پریتی پٹیل نے اس ردعمل کے بعد سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ ملک کا امیگریشن سسٹم درست نہیں چل رہا، اور انہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ امیگریشن کی بلند شرح سے وہ خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کی نئی قیادت کو اپنی پالیسیوں میں بہتری لانی ہوگی اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔
یہ معاملہ کنزرویٹو پارٹی میں ایک نیا تنازعہ پیدا کر چکا ہے اور اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ نئی قیادت اس پیچیدہ مسئلے کو کس طرح حل کرتی ہے۔