گورنر خیبر پختونخوا، فیصل کریم کنڈی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی، عمران خان کو این آر او نہیں دیا جائے گا اور ان کی رہائی کا فیصلہ عدالتوں کی صوابدید پر ہوگا۔ پشاور پریس کلب میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات صرف ان لوگوں کے ساتھ کیے جاتے ہیں جو سنجیدہ ہوں، اور مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے نقطہ نظر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت ہمیشہ مذاکرات پر یقین رکھتی ہے۔
گورنر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بڑے بیانات دینا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، اور یہ کہ عمران خان پہلے کسی بھی پارٹی کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں تھے، لیکن آج وہ مذاکرات کے لیے اسپیکر سے درخواستیں کر رہے ہیں۔ فیصل کریم کنڈی نے مزید کہا کہ وہ بطور چانسلر سنڈیکیٹ اور سلیکشن بورڈ کمیٹی کے رکن، صوبے کی 26 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی نامزدگی کا اختیار رکھتے ہیں، تاہم وہ صوبے میں امن و امان کی خراب صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا، علی امین گنڈاپور اپنے اپنے ضلع میں بھی امن قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ ان کے مطابق، صوبے میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت دہشت گردوں کی سہولت کار بن چکی ہے جو انتشار پھیلانے کے درپے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شریک نہیں ہوئے۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ انہوں نے وفاقی حکومت اور فوج سے کرم کے مسئلے پر بات کی ہے کیونکہ صوبائی حکومت اس پر کوئی اقدام نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبہ جل رہا ہے اور وفاق نے کرم کے لیے 5 ارب روپے دیے ہیں، لیکن صوبائی حکومت ان پیسوں کا صحیح استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا نے مزید کہا کہ سندھ میں صحت کارڈ کی سہولت میں 50 لاکھ روپے تک کی امداد فراہم کی جا رہی ہے، جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ رقم صرف 10 لاکھ روپے تک ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایپکس کمیٹی میں صوبے کی نمائندگی کرنے والے افراد پر انہیں اعتماد نہیں، کیونکہ ان کے خلاف مقدمات درج ہیں۔
یہ بیان گورنر کی جانب سے صوبے میں انتظامی اور حکومتی مسائل کے حل کی طرف توجہ مبذول کرنے کی کوشش کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ انہوں نے پی ٹی آئی کے موقف اور صوبے میں موجودہ حالات کے بارے میں سخت تحفظات کا اظہار کیا۔