سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے یہ کہا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوجی افراد پر ہوتا ہے، اور اس بات پر غور کیا جائے گا کہ فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتا ہے یا نہیں۔
عدالت میں جسٹس مسرت ہلالی نے ایک اہم سوال اٹھایا، جس میں انہوں نے وضاحت طلب کی کہ فوجی عدالتوں میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق مقدمہ کوئی اور سنتا ہے، لیکن سزا و جزا کا فیصلہ کمانڈنگ افسر کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ جس افسر نے مقدمہ نہیں سنا، وہ کس طرح سزا یا جزا کا فیصلہ کر سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وزارتِ دفاع کے وکیل نے کہا کہ فیصلے لکھنے کے لیے جیک برانچ کی معاونت حاصل کی جاتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے اس پر وضاحت طلب کی کہ اگر کسی اور ملک میں فوجی ٹرائل ہوتے ہیں تو وہاں جج کون ہوتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دنیا بھر میں کورٹ مارشل میں افسران ہی بیٹھتے ہیں اور ان افسران کو ٹرائل کا تجربہ ہوتا ہے۔ تاہم، جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ کیا ان افسران کی قانونی قابلیت بھی ہوتی ہے؟
اس دوران، جسٹس مسرت ہلالی نے ایک سوال اٹھایا کہ اگر ہائی جیکنگ کسی جنگی یا فوجی طیارے کے ساتھ کی جائے تو اس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟ جس پر عدالت میں مختلف قانونی پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے بارے میں وہ مزید دلائل فراہم کریں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے بتایا کہ 9 مئی کے واقعات میں پانچ ہزار ملزمان میں سے 105 ملزمان کے خلاف شواہد ہیں، جنہیں فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے پیش کیا گیا۔
آخری میں عدالت نے انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔