سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران مختلف ججز نے اہم سوالات اٹھائے، جن میں آرمی ایکٹ اور فوجی عدالتوں کے طریقہ کار کے حوالے سے وضاحت طلب کی گئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف فراہم کیا جاتا ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کو تمام پہلوؤں کو مدِ نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ فوجی عدالتوں میں فیصلے کون لکھتا ہے؟ انہوں نے کہا، “میری معلومات کے مطابق مقدمہ کوئی اور سنتا ہے، جبکہ سزا یا جزا کا فیصلہ کمانڈنگ افسر کرتا ہے۔” انہوں نے اس طریقہ کار پر سوال کرتے ہوئے کہا کہ اگر مقدمہ سننے والا اور فیصلہ کرنے والا مختلف ہو تو انصاف کی فراہمی کیسے یقینی بنائی جا سکتی ہے؟
وزارتِ دفاع کے وکیل نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالت کے فیصلے لکھنے کے لیے جیک برانچ کی معاونت حاصل کی جاتی ہے۔ تاہم عدالت نے اس وضاحت کے باوجود معاملے کی مزید تفصیل طلب کی۔
یہ کیس نہ صرف فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار بلکہ انصاف کی بنیادی شرائط پر بھی سوالات اٹھاتا ہے، جس پر آئینی بینچ اپنی سماعت جاری رکھے گا۔