سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان نے تفصیلی دلائل پیش کیے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 9 مئی کو سہ پہر 3 بجے سے شام 7 بجے کے دوران ملک بھر میں 39 فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جن میں سے 23 حملے پنجاب، 8 خیبر پختونخوا اور ایک سندھ میں ہوئے۔ ان کے مطابق یہ حملے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ 9 مئی کے واقعات کو بعض لوگ ردعمل قرار دیتے ہیں، لیکن ایسا ردعمل کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ پاکستان ایک حساس جغرافیائی خطے میں واقع ہے اور اسے مستقل خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جناح ہاؤس حملے میں غفلت برتنے پر فوج نے تین اعلیٰ افسران کو محکمانہ کارروائی کے تحت بغیر پنشن اور مراعات کے ریٹائر کر دیا۔ ان افسران میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک بریگیڈیئر اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔ مزید 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ترقی نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کسی فوجی افسر کے خلاف فوجداری کارروائی بھی کی گئی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوجداری کارروائی جرم کی موجودگی پر ہوتی ہے، جبکہ 9 مئی کے واقعات نہ روکنے پر صرف محکمانہ کارروائی کی گئی۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کے تحت محکمانہ کارروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی دی جا سکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن افسران نے تحمل کا مظاہرہ کیا، ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔
سماعت مکمل ہونے کے بعد جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل پر مختصر فیصلہ رواں ہفتے سنایا جائے گا۔
اگر آپ چاہیں تو اس کے لیے ایک مختصر سوشل میڈیا کیپشن یا خبر کا خلاصہ بھی فراہم کر سکتا ہوں۔