جمعرات, مئی 29, 2025

پسند کی شادی کرنے والی خاتون 12 سال بعد قتل، چار بھائی گرفتار !

خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں پسند کی شادی کے 12 سال بعد تین بچوں کی ماں کو مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا جب شوہر کی درخواست پر قبر کشائی کے بعد پوسٹ مارٹم کیا گیا، جس میں خاتون کی موت گلا گھونٹنے سے ہونے کی تصدیق ہوئی۔​

واقعے کی تفصیلات

پولیس کے مطابق، 9 اپریل کو خاتون کو مبینہ طور پر قتل کر کے خاموشی سے دفن کر دیا گیا۔ شوہر نے 12 اپریل کو تھانہ کوزہ بانڈہ میں شکایت درج کروائی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اس کی بیوی کو قتل کر کے دفن کیا گیا اور چار سالہ بیٹی کو سسرالیوں نے روک رکھا ہے۔ تفتیشی افسر نے کارروائی کرتے ہوئے بچی کو بازیاب کروا کر عدالت میں پیش کیا اور مجسٹریٹ سے قبر کشائی کی اجازت حاصل کی۔ 15 اپریل کو قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کیا گیا، جس میں خاتون کی موت کی وجہ گلا دبانے سے سانس بند ہونا بتائی گئی۔​

ملزمان کی گرفتاری

پولیس نے اب تک سات افراد کو گرفتار کیا ہے، جن میں سے چار مقتولہ کے بھائی اور تین جرگے کے رکن ہیں۔ ایک شخص مفرور ہے جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ شوہر کے مطابق، پسند کی شادی کے بعد ایک مقامی جرگے نے دونوں خاندانوں کے درمیان صلح کے لیے آٹھ لاکھ روپے وصول کیے تھے، مگر صلح نہ ہو سکی۔​

شوہر کا مؤقف

شوہر نے بتایا کہ دو سال قبل اس کی بیوی اور بچوں کو سسرالیوں نے یہ کہہ کر لے گئے کہ وہ اپنی ذمہ داری پر واپس لے آئیں گے۔ چند دن بعد دو بیٹوں کو واپس کر دیا گیا، مگر بیوی اور بیٹی کو روک لیا گیا۔ اس دوران کئی جرگے ہوئے، مگر خاتون کے اہلخانہ صلح پر آمادہ نہ ہوئے۔ شوہر نے مزید بتایا کہ اسے دھمکیاں دی گئیں کہ اگر پولیس کی مدد لی تو بیوی اور بیٹی کو نقصان پہنچایا جائے گا، جس کے باعث وہ دو سال تک خاموش رہا۔​

قانونی کارروائی اور سماجی ردعمل

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد پولیس نے باقاعدہ مقدمہ درج کر کے کارروائی کا آغاز کیا۔ یہ واقعہ پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک کڑی ہے۔ غیر سرکاری ادارے ایس ایس ڈی او کی رپورٹ کے مطابق، 2024 میں پاکستان میں غیرت کے نام پر 547 قتل ہوئے، تاہم اکثر ملزمان کو سزا نہیں ملتی۔​

نتیجہ

یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی خودمختاری اور پسند کی شادی کے حق کو تسلیم کرنے میں ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر قانون سازی اور اس پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے تاکہ خواتین کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔​

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب