ماسکو — مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایران اور اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق، روسی صدر نے دونوں ممالک کے سربراہان، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کو ٹیلیفون کر کے براہِ راست بات چیت کی اور امن قائم کرنے کے لیے روس کے ممکنہ کردار پر زور دیا۔
ذرائع کے مطابق، پیوٹن کی یہ پیشکش ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ مسلح جھڑپوں کے فوری بعد سامنے آئی ہے۔ روس کا یہ اقدام بظاہر ایک سفارتی کوشش ہے تاکہ خطے میں کسی بڑی جنگ کے امکانات کو روکا جا سکے، جو عالمی امن کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے تجزیہ کار نکول گریجوسکی کے مطابق، پیوٹن کی ثالثی کی پیشکش کے پیچھے ایک اہم حکمت عملی کارفرما ہے۔ روس ایران میں اپنی حمایت یافتہ حکومت کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے اور کسی بھی ایسی سیاسی تبدیلی کا مخالف ہے جو ایران میں مغرب نواز قیادت کے اقتدار میں آنے کا باعث بنے۔
یاد رہے کہ روس اور ایران کے مابین رواں سال جنوری میں ایک اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت دونوں ممالک نے فوجی تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا تھا۔ اس تناظر میں، ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں نہ صرف تہران بلکہ ماسکو کے لیے بھی باعث تشویش ہیں۔
روس نے اسرائیل کے ایران پر حالیہ حملوں کی کھل کر مذمت بھی کی ہے۔ دوسری جانب، یوکرین اور مغربی اتحادیوں نے ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روس کو ڈرون اور قریبی فاصلے تک مار کرنے والے میزائل فراہم کر رہا ہے، جو یوکرین جنگ میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں پیوٹن کی ثالثی کی پیشکش ایک اہم سفارتی کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جو اگر کامیاب ہو گئی تو مشرق وسطیٰ میں بگڑتی صورتحال پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔