نئی دہلی — بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے 2014 میں شروع کی گئی “میک اِن انڈیا” مہم کو ایک دہائی مکمل ہو چکی ہے، تاہم اعداد و شمار اور زمینی حقائق اس پالیسی کی ناکامی کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس پالیسی کا مقصد بھارت کو صنعتی طور پر خود کفیل بنانا تھا، مگر آج بھی مینوفیکچرنگ کا حصہ ملکی معیشت میں 14 فیصد سے کم ہے۔
حکومتی دعوؤں کے برعکس، بھارت کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری اب بھی بڑے پیمانے پر غیر ملکی سپلائی چین، خصوصاً چین پر انحصار کرتی ہے۔ موبائل فون، شمسی توانائی کے آلات، اور الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریز جیسے کلیدی شعبے ابھی تک چین سے پرزے اور خام مال درآمد کرتے ہیں۔
فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں بھی بھارت کی خود مختاری محدود دکھائی دیتی ہے، جہاں APIs (Active Pharmaceutical Ingredients) کا تقریباً 72 فیصد حصہ چین سے درآمد ہوتا ہے۔ یہی صورتحال الیکٹرانک اشیاء کی تیاری میں بھی نظر آتی ہے، جہاں ڈکسن جیسی بڑی بھارتی کمپنیاں اب بھی چینی کمپنیوں جیسے HKC Co پر انحصار کر رہی ہیں، جبکہ معروف چینی کمپنی BYD کے ساتھ سرمایہ کاری کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔
مودی حکومت کی “پروڈکشن لنکڈ انسینٹو” اسکیم سے صرف محدود شعبے ہی مستفید ہو سکے، جبکہ بھارت کا بنیادی صنعتی ڈھانچہ کمزور ہی رہا۔ اس عرصے میں بھارت کا چین پر انحصار کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا ہے، جسے ماہرین معاشیات “ملٹی ڈیپنڈنسی” کا نام دے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، مودی سرکار کی معاشی پالیسیوں نے حقیقی خود کفالت کے بجائے ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ گئی ہے، جسے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ صنعتی ترقی کے حقیقی اشاریے مودی حکومت کے دعووں سے مطابقت نہیں رکھتے، اور بھارت کی معیشت اب بھی عالمی طاقتوں، بالخصوص چین اور امریکہ پر انحصار کرتی دکھائی دیتی ہے۔
یہ صورتِ حال اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ “میک اِن انڈیا” مہم محض ایک سیاسی نعرہ تھی، جو صنعتی خود کفالت کی جانب خاطر خواہ پیش رفت نہ کر سکی۔