مشرق وسطیٰ میں کشیدگی نے ایک نیا موڑ اس وقت لیا جب اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گالانت نے اعلان کیا کہ اسرائیلی فضائیہ نے ایران میں متعدد جوہری اور عسکری اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں تہران سمیت کئی ایرانی شہروں میں شدید دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، جس سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
برطانوی ذرائع ابلاغ نے ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کے حوالے سے تصدیق کی ہے کہ حملوں میں ایران کے دو سینئر جوہری سائنسدان ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر فریدون عباسی شامل ہیں، جو ماضی میں ایرانی ایٹمی توانائی ادارے (AEOI) کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ یہ ادارہ ایران کی جوہری تنصیبات کی نگرانی کرتا ہے۔ یاد رہے کہ فریدون عباسی اس سے قبل 2010 میں ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہو چکے تھے، تاہم اُس وقت وہ جان بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
دوسرے جاں بحق ہونے والے سائنسدان محمد مہدی طہرانچی تھے، جو اسلامی آزاد یونیورسٹی تہران کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ دونوں سائنسدان ایران کے جوہری اور تعلیمی حلقوں میں انتہائی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے تھے۔
امریکی اور اسرائیلی میڈیا کے مطابق ان فضائی حملوں کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیت کو محدود کرنا اور ممکنہ خطرات کا پیشگی تدارک کرنا تھا۔ تاہم ایران کی جانب سے تاحال کسی باضابطہ ردعمل یا جوابی کارروائی کا اعلان سامنے نہیں آیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ حملے نہ صرف ایران کے سٹریٹیجک پروگرام کو متاثر کر سکتے ہیں بلکہ خطے میں کشیدگی کو بھی شدید حد تک بڑھا سکتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد مشرق وسطیٰ میں نئی سفارتی اور عسکری صف بندیوں کے امکانات پر بھی بحث شروع ہو گئی ہے۔