نیویارک — اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی آج غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے پر مبنی ایک اہم قرارداد پر ووٹنگ کرے گی، جس میں اسرائیل کی جانب سے جاری حملوں کو روکنے اور فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کی اپیل کی گئی ہے۔
یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں پیش کی گئی ہے جب گزشتہ ہفتے امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسی نوعیت کی ایک قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا، جس پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ اب 193 رکنی جنرل اسمبلی میں یہ قرارداد پیش کی جا رہی ہے اور مبصرین کا ماننا ہے کہ اس کی منظوری کے امکانات خاصے روشن ہیں، اگرچہ اسرائیل کی جانب سے اسے رکوانے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔
قرارداد میں واضح طور پر مطالبہ کیا گیا ہے کہ حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے تمام افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ساتھ ہی اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ سے مکمل فوجی انخلا پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قرارداد میں انسانی بنیادوں پر امدادی رسائی کو بلا کسی رکاوٹ کے یقینی بنانے کا تقاضا کیا گیا ہے، اور خوراک و ادویات کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے جیسے اقدامات کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب، ڈینی ڈینن، نے اس قرارداد پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے “جھوٹ پر مبنی” اور “بہتان آمیز” قرار دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ قرارداد حماس کی مذمت کرنے میں ناکام ہے اور یرغمالیوں کی رہائی کے عمل کو سبوتاژ کر سکتی ہے۔ انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس قرارداد کی مخالفت کریں اور “غلط پیغام” دینے سے گریز کریں۔
قرارداد پر ہونے والی یہ ووٹنگ نہ صرف غزہ کی صورتِ حال پر عالمی رائے کا اظہار ہوگی بلکہ یہ اقوام متحدہ کی سطح پر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری کشیدگی کے مستقبل پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری کی نظریں اس وقت جنرل اسمبلی کے اجلاس پر مرکوز ہیں، جہاں ممکنہ طور پر ایک اہم سفارتی موڑ سامنے آ سکتا ہے۔