وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں عوام، خاص طور پر تنخواہ دار طبقے کو ممکنہ حد تک ریلیف فراہم کیا ہے۔ اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور میری خواہش تھی کہ تنخواہ دار طبقے پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے، اسی لیے پنشن اور تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملکی معیشت کو ایکسپورٹ پر مبنی بنانے کی حکومتی حکمتِ عملی کے تحت 7 ہزار میں سے 4 ہزار ٹیرف لائنز پر کسٹمز ڈیوٹی ختم جبکہ 2700 پر کمی کی گئی ہے، جو گزشتہ 30 برس میں پہلی بار ہوا ہے۔ اس اقدام سے برآمد کنندگان کو واضح فائدہ ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے ایف ای ڈی (فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی) میں بھی کمی کی ہے تاکہ ٹرانزیکشن کاسٹ کم ہو اور صارفین کو براہِ راست ریلیف ملے۔
محمد اورنگزیب نے واضح کیا کہ حکومت کی جانب سے رواں سال 400 ارب روپے سے زائد ٹیکس انفورسمنٹ کے ذریعے جمع کیے گئے، اور اب ٹیکس قوانین میں اصلاحات اور نافذ العمل بنانے کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی کی جائے گی۔ ان کے مطابق ٹیکس اور محصولات سے متعلق تمام فیصلے صوبوں کی مشاورت سے کیے جا رہے ہیں اور این ایف سی ایوارڈ پر اکتوبر سے قبل کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ فارمل اور انفارمل ریٹیل سیکٹرز میں واضح فرق ہے اور اس پر کام جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات کی جا رہی ہیں مگر فی الحال نرخوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ عالمی ادارے پاکستان کے ٹیکس نظام پر اعتماد نہیں کر رہے تھے، اسی لیے گزشتہ سال اضافی ٹیکسز لگانے پڑے۔ اس سال ٹیکس وصولیوں کی شرح جی ڈی پی کے مقابلے میں 10.3 فیصد ہے جو اگلے سال 10.9 فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹیکسز نافذ نہ کیے جا سکے تو حکومت کو مزید 400 سے 500 ارب روپے کے متبادل اقدامات کرنا ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا مقصد ٹیکس نیٹ کو بڑھانا اور موجودہ نظام میں لیکیجز کو بند کرنا ہے، جس کے لیے قانون سازی ناگزیر ہے۔