اتوار, جون 15, 2025

پاکستان میں 60 فیصد بچے گھریلو تشدد کا شکار، سروے رپورٹ

پاکستان میں حالیہ ایک سروے کے مطابق تقریباً 60 فیصد بچوں کو گھریلو سطح پر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سروے اس وقت سامنے آیا ہے جب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 4 جون کو عالمی دن برائے معصوم بچوں پر جارحانہ رویوں کے خلاف آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے۔

معاشرتی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسے بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جو گھریلو جھگڑوں، گالم گلوچ، چیخ و پکار اور والدین کے غصے کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ ان بچوں کی معصومیت اور ذہنی نشوونما شدید خطرے میں ہے، کیونکہ وہ روزمرہ زندگی میں ان تلخ تجربات کا شکار ہوتے ہیں۔

لاہور کے علاقے شاہدرہ میں قائم ’’امینہ سینٹر‘‘ ایک غیر رسمی تعلیمی ادارہ ہے جہاں جھونپڑیوں میں رہنے والے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہاں کی طالبہ عشا نور نے بتایا کہ بہت سے بچے ایسے ہیں جن کے والدین ہمیشہ لڑتے، چیختے، گالیاں دیتے اور تشدد کرتے ہیں۔ بچے جب گھر میں جھگڑے دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ خوفزدہ ہو کر رات کو بھی جاگتے رہتے ہیں۔ عشا کا کہنا ہے کہ بچے کھلونے نہیں کہ جب چاہا کھیل لیں اور جب چاہا توڑ پھوڑ دیں، بلکہ یہ پھول کی مانند نازک ہستی ہیں جنہیں پیار اور توجہ کی ضرورت ہے۔

امینہ سینٹر کے استاد محمد عابد کے مطابق یہاں بچوں کو صرف تعلیم نہیں بلکہ ذہنی اور جذباتی بحالی کی بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بچوں سے سختی کرنے کے بجائے نرمی اور محبت سے پیش آنا چاہیے تاکہ وہ خود کو محفوظ محسوس کریں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سوشل میڈیا پر تشدد کی جھلک بچوں کے رویوں میں شدت پیدا کر رہی ہے، کیونکہ بچے فلموں اور ڈراموں میں دکھائے گئے تشدد کی نقل کرتے ہیں۔

کلینیکل سائیکالوجسٹ فاطمہ طاہر نے اس صورتحال کو نہایت سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ گھریلو جھگڑے، مالی مشکلات اور والدین کے غصے کا براہ راست اثر بچوں کی نفسیات پر پڑتا ہے۔ بعض بچے جارح ہو جاتے ہیں تو کچھ خوفزدہ ہو کر خود کو معاشرتی طور پر الگ تھلگ کر لیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ نفسیاتی زنجیر ٹوٹے بغیر معاشرے میں امن ممکن نہیں۔

سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو محفوظ، محبت بھرا اور پرسکون ماحول فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے لیے گھر، اسکول، حکومت اور سول سوسائٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر اسکول میں بچوں کے لیے مستقل کونسلر مقرر کیا جائے اور والدین کی تربیت کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے تاکہ وہ اپنی تربیتی حکمت عملیوں کو بہتر بنا سکیں۔

یہ حقیقت سمجھنا ضروری ہے کہ بچوں پر تشدد اور غصہ نکالنا تربیت نہیں بلکہ ظلم ہے۔ آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے بچوں کو آج محفوظ اور خوشگوار ماحول نہ دیا تو کل کا معاشرہ مشکلات کا شکار ہوگا۔ لہٰذا ہمیں مل کر بچوں کے حقوق اور خوشحالی کے لیے کام کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب