یمن کے صوبہ الحدیدہ میں اسرائیل کی فضائی کارروائی کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ حوثی حکومت کے تحت وزارت داخلہ نے اسرائیل کے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل نے بحر احمر کی تین اہم بندرگاہوں — راس عیسیٰ، الحدیدہ اور صلیف — کے شہریوں کو ان علاقوں کو خالی کرنے کی وارننگ دی تھی۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ یہ بندرگاہیں ایران کے حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں کے زیر استعمال ہیں، جو ان مقامات کو اپنے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم، حوثی ذرائع ابلاغ نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ صبا نیوز ایجنسی کے سربراہ نصرالدین عامر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ابھی تک کسی قسم کا حملہ نہیں کیا گیا ہے، اور اسرائیلی حکام نے اس معاملے پر کوئی سرکاری بیان بھی جاری نہیں کیا۔
یہ صورتحال اس وقت پیش آئی ہے جب حالیہ دنوں میں یمن سے داغا گیا ایک میزائل اسرائیل کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دیا گیا تھا۔ اسرائیل نے اس پر جوابی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔
یاد رہے کہ 15 مارچ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حوثیوں کے خلاف دوبارہ فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، تاہم عمان کی ثالثی سے ایک سیزفائر معاہدہ طے پایا جس میں اسرائیل کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ سیزفائر پر دستخط کے باوجود حوثی ملیشیا نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملے جاری رکھے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ یہ حملے غزہ میں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور پر کیے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ نے چند روز قبل کہا تھا کہ حوثیوں نے بین الاقوامی شپنگ روٹس پر حملے نہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، تاہم اسرائیل کی فوجی کارروائیاں ابھی بھی جاری ہیں، جس سے علاقے میں مزید کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔