نئی دہلی / سرینگر: بھارت نے ایک بار پھر سندھ طاس معاہدے کو نظر انداز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں دو نئے ہائیڈرو پاور منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے، جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ بھی شامل ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق بھارت نے ان منصوبوں کے آغاز سے قبل پاکستان کو کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی، جو کہ سندھ طاس معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، جس کے تحت دونوں ممالک کو کسی بھی آبی منصوبے سے متعلق ایک دوسرے کو بروقت آگاہ کرنا لازم ہے۔ تاہم بھارت پہلے ہی اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا غیر قانونی اعلان کر چکا ہے، جسے پاکستان نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔
حالیہ منصوبوں میں دریائے چناب پر پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ بھارت نے پہلے بگلیہار ڈیم بنایا، اور اب سلال ڈیم کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان کی جانب بہنے والا پانی کم ہو کر صرف 5,300 کیوسک رہ گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدام نہ صرف زرعی شعبے بلکہ پاکستان کی مجموعی آبی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
بھارت نے 22 اپریل کو پہلگام میں فائرنگ کے ایک مشکوک واقعے کے بعد، بغیر کسی تحقیقات کے پاکستان پر الزام عائد کیا اور اسی بنیاد پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ ماہرین اس اقدام کو سیاسی انتقام اور علاقائی کشیدگی کو بڑھانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان نے اس معاملے پر عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو اس آبی جارحیت سے باز رکھا جائے اور سندھ طاس معاہدے پر مکمل عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔