نئی دہلی: پہلگام میں حالیہ فالس فلیگ حملے کے بعد بھارت میں فرقہ واریت، مسلم دشمنی اور ہندوتوا انتہا پسندی میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مودی حکومت اور اس کے حامی میڈیا اداروں نے اس واقعے کو مذہبی رنگ دے کر عوام میں نفرت کا زہر گھول دیا ہے، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی میڈیا اس واقعے کو “مذہب پوچھ کر مارا گیا” جیسے اشتعال انگیز بیانیے کے ساتھ پیش کر رہا ہے، جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ اس مہم کا براہِ راست اثر زمینی سطح پر دیکھا جا رہا ہے جہاں مسلمانوں پر حملے اور فسادات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک تازہ ترین افسوسناک واقعہ اتراکھنڈ کے شہر دہرادون کے قریب پیش آیا، جہاں ایک مسلمان خاندان شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے جا رہا تھا۔ راستے میں ہندوتوا انتہا پسندوں نے گاڑی روک کر خاندان کے افراد سے ان کا نام اور مذہب دریافت کیا، اور تصدیق کے بعد ان پر لوہے کی سلاخوں اور چاقوؤں سے وحشیانہ حملہ کر دیا۔
حملے میں متعدد افراد شدید زخمی ہوئے جنہیں فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔ مقامی پولیس نے واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے، تاہم متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ انہیں انصاف کی امید کم ہی ہے کیونکہ ایسے حملوں میں اکثر انتہا پسندوں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔
یہ واقعہ بھارت میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کی واضح مثال ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کا نوٹس لے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے آواز بلند کرے۔