پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا میں ادویات کی خریداری سے متعلق اہم فیصلہ سناتے ہوئے محکمہ صحت کا کروڑوں روپے مالیت کا ٹینڈر کالعدم قرار دے دیا۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس خورشید اقبال پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ جاری کیا، جس میں محکمہ صحت کے جاری کردہ ٹینڈر کو غیر شفاف اور امتیازی قرار دیا گیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ٹینڈر مخصوص کمپنی کو فائدہ پہنچانے کی ایک منظم کوشش تھی، جو کہ قانونی ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ فرنٹیئر ڈیکسٹروز نامی کمپنی کو دیا گیا ٹینڈر فوری طور پر منسوخ کیا جائے اور ادویات کی خریداری کے عمل کو شفاف اور قانونی تقاضوں کے مطابق دوبارہ شروع کیا جائے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ عوامی فنڈز سے ہونے والی خریداری میں شفافیت اور منصفانہ مسابقت کو یقینی بنایا جائے، تاکہ غیر معیاری ادویات کے باعث انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے سے روکا جا سکے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ فرنٹیئر ڈیکسٹروز لمیٹڈ پہلے ہی جعلی اور غیر معیاری ادویات کی فراہمی کے الزامات کے تحت بلیک لسٹ ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی کمپنی کو دوبارہ سرکاری اسپتالوں میں ادویات فراہم کرنے کی اجازت دینا عوام کی صحت اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں، وکیل نے عدالت کو بتایا کہ غیر معیاری ادویات کے خلاف کارروائی کے لیے مختلف لیبارٹری رپورٹس بھی پیش کی جا چکی ہیں۔
عدالتی فیصلے کو ماہرین صحت اور عوامی حلقوں کی جانب سے ایک مثبت اقدام قرار دیا جا رہا ہے، جو مستقبل میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کی فراہمی کو روکنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔