پاکستان نے یورپی یونین کے زیر اہتمام چاول کی آلودہ شپمنٹس کی روک تھام کے بعد فوری کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے، جس سے ملک کی چاول کی صنعت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ وزارت قومی فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ فائٹوسینٹری سرٹیفکیٹس کے اجراء میں تاخیر پاکستان کی زرعی برآمدات کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوڈ سیفٹی اور فائٹوسینٹری معیارات کی تعمیل میں کوئی کوتاہی کی گئی تو بین الاقوامی تجارتی پابندیاں یا رکاوٹیں عائد کی جا سکتی ہیں، جس سے پاکستان کی معیشت کو زبردست نقصان پہنچ سکتا ہے۔
چاول کی برآمدات پاکستان کے لیے زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہیں، اور خاص طور پر باسمتی چاول کی عالمی منڈیوں میں بے حد مانگ ہے۔ گزشتہ مالی سال میں چاول کی کل برآمدات 3.93 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی تھیں، جن میں باسمتی چاول کا حصہ 877 ملین ڈالر تھا۔ تاہم، اس سال کے ابتدائی پانچ مہینوں میں چاول کی برآمدات 1.515 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہیں، جن میں باسمتی چاول کا حصہ 386 ملین ڈالرز ہے۔ لیکن فائٹوسینٹری معیارات کی تعمیل میں کسی بھی قسم کی کوتاہی پاکستان کی تجارت کے لیے ایک سنگین چیلنج بن سکتی ہے۔
یہ مسئلہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب یورپی یونین کے ایک رکن ملک نے پاکستان سے درآمد ہونے والی ایک شپمنٹ کو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ جانداروں (جی ایم اوز) کی آلودگی کی بنیاد پر روک لیا۔ یہ آلودہ شپمنٹ نیدرلینڈ کی جانب جا رہی تھی اور اس کی روک تھام 31 جولائی 2024 کو کی گئی تھی، جسے 2 اگست 2024 کو یورپی یونین کے فوڈ اینڈ فیڈ الرٹ سسٹم کے ذریعے باضابطہ طور پر اطلاع دی گئی۔
پاکستانی حکام نے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں تاکہ عالمی منڈیوں میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے اور چاول کی برآمدات کو مزید مشکلات سے بچایا جا سکے۔