14 اگست 1947ء کو جب ہمیں آزادی ملی تو مشرقی پاکستان بھی ہمارا حصہ تھا۔
ایک جان دو قالب مگر پھر 16 دسمبر 1971ء کو ہمارا یہ بازو کٹ گیا۔ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش تو بن گیا مگر وہاں بھی انقلاب در انقلاب آتے رہے۔ وہاں کے حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات رکھے اور پاکستان کے ساتھ مخاصمت کا رویہ اپنایا۔ شیخ مجیب عبرت ناک انجام سے دو چار ہوئے اور اب 5 اگست 2024 ء کو مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کو بھی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہ بھارت فرار ہونے پر مجبور ہوگئی۔ طلبہ تحریک نے وہاں بڑے بڑے بت زمیں بوس کر دیے۔ ڈاکٹر یونس نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی اور اب بنگلہ دیش کا جھکاؤ بھارت کی طرف کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔
بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کامیابی اور جیت کے ساتھ مکمل کیا ہے اور گزشتہ دنوں یہ دل خوش کن خبر سامنے آئی ہے کہ بنگلہ دیش میں قائد اعظم کی 76 ویں برسی کی تقریبات منائی گئی ہیں اور مقررین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ 1947ء میں اگر مشرقی پاکستان نہ بنتا اُسے آزادی نصیب نہ ہوتی تو بنگلہ دیش کا قیام بھی نا ممکن تھا۔
اس لیے انہوں نے بر ملاطور پر قائد اعظم کو اپنا محسن قرار دیا ہے۔ یہ ہمارے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
اُمید ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئی برادرانہ فضا قائم ہو جائے گی۔
ان شاء الله !!