پشاور: ایک حالیہ آڈٹ رپورٹ نے خیبر پختونخوا میں بدانتظامی، دھوکہ دہی اور مالی بے قاعدگیوں کا ایک نیا پہلو بے نقاب کیا ہے جس کے نتیجے میں صوبے کے مختلف ترقیاتی منصوبے اور محکمے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، عوامی خزانے کو 152 ارب 10 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، جس میں ترقیاتی اخراجات کی غلط درجہ بندی اور مختلف قسم کی مالی بے قاعدگیاں شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 84 ارب 83 کروڑ روپے کے معاملات کی نوٹس میں لائی گئی ہیں، جن میں 51 کروڑ 46 لاکھ روپے کی مشکوک اور دھوکہ دہی کی ادائیگیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، 13 کروڑ 29 لاکھ روپے کی فراڈ ادائیگیاں بھی کی گئیں، اور کئی منصوبوں میں گاڑیوں کے غلط استعمال اور گمشدگی کے معاملات سامنے آئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 42 ارب روپے سے زائد کی ریکوری کی نشاندہی کی گئی ہے، جبکہ 2023 کے دوران 7 کروڑ زائد کی ریکوری کی تصدیق کی گئی ہے۔ آڈٹ رپورٹ نے یہ واضح کیا کہ دھوکہ دہی کی ادائیگیاں، اخراجات میں اضافے اور حکومتی بدانتظامی نے صوبے کی ترقی کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور عوامی اعتماد کو مجروح کیا ہے۔
یہ رپورٹ خیبر پختونخوا حکومت کے مالی سال 2022-23 کے اکاؤنٹس اور پچھلے کچھ مالی سالوں کے اکاؤنٹس پر مبنی ہے۔ رپورٹ میں ایک منصوبے کے 20 کروڑ 5 لاکھ 36 ہزار روپے کی غیر منطقی لاگت میں اضافے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ اس منصوبے میں کافی رعایتیں دی گئی تھیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کے ایک اہلکار نے اس حوالے سے کہا کہ یہ آڈٹ اعتراضات پچھلی حکومت کے اخراجات سے متعلق ہیں اور حکام پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ان کا دفاع کریں گے۔ اس کے علاوہ، یہ بھی کہا گیا کہ اعتراضات کو دور کرنے کا ایک مجوزہ طریقہ کار موجود ہے، ورنہ انہیں قابل اعتراض رقم واپس کرنا ہوگی۔
یہ رپورٹ خیبر پختونخوا کے مالی معاملات میں اہم انکشافات کی غمازی کرتی ہے، جس سے حکومتی سطح پر مالی اصلاحات کی ضرورت اجاگر ہو رہی ہے۔