سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال پر لیے گئے ازخود نوٹس کو نمٹا دیا۔
سماعت کے دوران عدالت نے سوالات اٹھائے کہ فوجداری مقدمے میں جائیدادوں کا معاملہ شامل کیوں کیا گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اعظم سواتی کے خلاف فوجداری واقعے پر ایف آئی آر درج ہو چکی ہے، تو ان کی جائیدادوں کا مسئلہ کہاں سے سامنے آ گیا؟ انہوں نے مزید کہا کہ بطور وزیر اعظم سواتی کی کارکردگی قابل ذکر نہیں رہی۔
جسٹس امین الدین خان نے وضاحت کی کہ ٹیکس اور جائیدادوں کے معاملات کو متعلقہ محکمے کو دیکھنا چاہیے۔ سرکاری وکیل نے بتایا کہ فوجداری مقدمے پر ٹرائل جاری ہے، جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر ٹرائل چل رہا ہے تو یہ درست ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ اعظم سواتی پر وزارت کے دوران اپنے دفتر کے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اعظم سواتی خود کہاں ہیں، جس پر بتایا گیا کہ وہ سماعت میں موجود نہیں لیکن ان کے وکیل ویڈیو لنک کے ذریعے حاضر ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ اگر کوئی متاثرہ فریق ہے تو وہ متعلقہ فورم سے رجوع کرے۔ عدالت کی جانب سے اس کیس کو نمٹاتے ہوئے تمام قانونی معاملات متعلقہ محکموں اور فورمز کے سپرد کر دیے گئے۔