بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر سمبھل میں ہندو انتہا پسندوں نے شاہی جامع مسجد کی جگہ مندر ہونے کا دعویٰ کیا، جس کے بعد علاقے میں شدید ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ ان واقعات کے دوران پولیس کی مداخلت اور مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں 5 افراد ہلاک ہوگئے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، انتہا پسندوں نے دعویٰ کیا کہ 1529ء میں مغل بادشاہ بابر نے مبینہ طور پر یہاں ایک ہندو مندر کو گرا کر یہ مسجد تعمیر کی تھی۔ اس دعوے کے بعد عدالتی حکم پر مسجد کے سروے کا آغاز ہوا، جس کے خلاف مقامی افراد نے شدید احتجاج کیا۔
احتجاج کے دوران پولیس نے لاٹھی چارج، آنسو گیس، اور فائرنگ کا استعمال کیا، جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے اور ہنگامے مزید شدت اختیار کر گئے۔ حکام نے 2 خواتین سمیت 25 افراد کو گرفتار کر لیا، جبکہ شہر میں انٹرنیٹ سروس معطل اور تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ مزید برآں، یکم دسمبر تک شہر کے باہر سے آنے والوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی نے کہا کہ حکومت کا جانبدارانہ رویہ ملک اور عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے معاملے کا نوٹس لے کر انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
راہول گاندھی نے بھی بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی پالیسیوں اور اقدامات نے سمبھل میں کشیدگی پیدا کی، جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
یہ واقعہ بھارت میں مذہبی تناؤ اور امتیازی پالیسیوں کی ایک اور مثال کے طور پر سامنے آیا ہے، جس سے ملک کے سیکولر تشخص پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔