پی ٹی آئی کہ اسلام آباد جلسہ کے بعد ایک دفعہ پھر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کا پی ٹی آئی کے ساتھ ٹکراو کا ماحول بالادست نظر آتا ہے۔سیاسی پنڈتوں کا یہ تجزیہ بھی غلط ثابت ہورہا ہے کہ عمرا ن خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان کوئی مفاہمت کا راستہ نکل آیا ہے مگر ایسے لگتا ہے کہ کوئی تو ہے جسے عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان مفاہمت قبول نہیں۔ کیونکہ حکومت کو کسی بھی صورت یے آپشن قبول نہیں کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان جو تلخیاں یا فاصلے ہیں وہ کم ہوں۔
کیونکہ اس مفاہمت کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان حکومت او ربالخصوص مسلم لیگ ن کو ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی جلسہ کے بعد جو ردعمل حکومت نے دیا اور جس طریقے سے ارکان اسمبلی کو عملا پارلیمنٹ کے احاطہ سے گرفتار کیاگیا، مقدمات قائم کیے گئے وہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس ردعمل کو بنیاد بنا کر اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں کو کمزور کرنا چاہتی ہے یا اس میں مزید بداعتمادی کے ماحول کو بڑھانا چاہتی ہے۔
نیا سیاسی معرکہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان لاہور میں ہونے والا جلسہ ہوگا۔حکومت اس جلسہ کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں اور وہ سمجھتی ہے کہ اگر پی ٹی آئی جلسوں کی سیاست میں کود پڑی تو وہ اپنا سیاسی ماحول بنا کر حکومت پر ایک بڑا دباو پیدا کرسکتی ہے۔اسلام آباد جو کچھ ہوا وہ حکومتی توقعات کے عین مطابق تھا۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور پی ٹی آئی براہ راست جہاں حالات کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتی ہے وہیں وہ اسٹیبلیشمنٹ کو بھی اس کا حصہ سمجھتی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان نے پارٹی کو ہدایت کی ہے کہ اب کوئی بھی اسٹیبلیشمنٹ سے بات چیت نہیں کرے گا او رجو لوگ بھی پارٹی میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں وہ پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔کے پی کے کے وزیر اعلی کی کئی گھنٹوں پر مشتمل پرسرار گمشدگی اور ان کا اہم لوگوں سے ملاقاتو ں کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے اور کچھ تو ایسا ہے جس پر کوئی نہ کوئی پردہ داری کا کھیل سمجھا جارہا ہے۔
اسٹیبلیشمنٹ کی مشکل یہ ہے کہ اس نے پی ٹی آئی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن سمیت پیپلزپارٹی پر مشتمل جو سیاسی حکومت کا مصنوعی انداز کو بنیاد بنا کر سیاسی بندوبست کیا تھا وہ مسلسل ناکامی سے دوچار ہے۔ اصل مسئلہ معیشت کا ہے اور حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ تمام تر سفارت کاری کے باوجود معیشت کے محاذ پر ناکام ہیں اور کوئی ملک ہمیں پیسے دینے کے لیے تیار نہیں۔ آئی ایم ایف سے ماہدہ بھی سیاسی طور پرلٹکا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کے حالات ہوں یا خیبر پختونخواہ کے حالات اسٹیبلیشمنٹ کئی محازوں پر مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ اس کا حکومتی بندوبست اس کو سیاسی اور معاشی طور پر سہارا دینے میں ناکام ہوا ہے۔
اس لیے اسٹیبلیشمنٹ کو اب متبادل راستوں کی تلاش ہے اور وہ چاہتی ہے کہ کوئی ایسا سیاسی راستہ نکل سکے جو ہمیں ان مشکلات سے باہر نکال سکے۔اسی بنیادوں پر اسٹیبلیشمنٹ کے ایک حلقہ میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ہمیں عمران خان کے ساتھ مفاہمت کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔لیکن اسٹیبلیشمنٹ چاہتی ہے کہ عمران خان سے جو کچھ بھی طے ہو اس میں اسٹیبلیشمنٹ کا پلڑہ بھاری ہو اور یہ تاثر نہ پیدا ہو کہ ہمیں دفاعی طوزیشن پر کھڑا ہونا پڑا ہے۔جبکہ دوسری طرف عمران خان نے بھرپور طور پر اپنی مزاحمت سے اسٹیبلیشمنٹ کو واقعی مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔عمران خان کے مطالبات تین ہی ہیں۔
اول نئے منصفانہ اور شفاف فوری نئے انتخابات، نو مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام اور پارٹی کے لوگوں پر دہشت گردی سمیت دیگر مقدمات کا خاتمہ اور ان مطالبات سے عمران خان پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔و ہ سمجھتے ہیں کہ فیصلوں کی طاقت حکومت کے پاس نہیں بلکہ اسٹیبلیشمنٹ کے پاس ہے اور بات چیت بھی ان ہی سے ہوگی۔یہ جو عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ڈیڈ لاک ہے اسی میں ہماری سیاسی الجھ کر رہ گئی ہے اور اس سے نکلے بغیر سیاست، جمہوریت اور معیشت کے معاملات میں جو ڈیڈ لاک ہے وہ نہیں ٹوٹ سکے گا۔اس لیے اصل نقطہ ہی ہمیں لگتا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان جنگ ہے اور یہ جنگ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہمیں بحران کی سیاست سے باہر نہیں نکال سکے گی۔