پیارے دوستو ! دعائے سلامتی و شادمانی۔
دنیا میں آج جو ترقی نظر آرہی ہے وہ علم ہی کی بدولت ہے۔ کتاب اور علم سے ناطہ جوڑنے والی قوموں نے ہی ترقی کے انتہائی مدارج طے کیے ہیں۔ زمانہ موجود میں الیکٹرانک میڈیا گو ہر جگہ چھا چکا ہے مگر پھر بھی پرنٹ میڈیا کی اہمیت برقرار ہے۔ مغرب میں الیکٹرانک میڈیا ہم سے زیادہ طاقت ور ہے مگر وہاں پر کتاب بینی کی شرح ہم سے بہت آگے ہے۔ کتاب زندگی کی سب سے بہتر رفیق ہے۔ اچھی کتابوں کا اثر ساری زندگی قاری کے ذہن پر نقش رہتا ہے۔ کتاب جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کا چراغ ہے۔ دنیا کے عظیم انقلابات عظیم کتابوں کے ہی مرہونِ منت ہیں۔ ذہنوں کو جلا اور سکون صرف کتاب کے مطالعے سے ہی ملتا ہے۔ کتاب اپنے قاری کو دنیا جہان کی سیر کراتی ہے اور اُس پر علم کے نئے در وا کرتی ہے۔
مقام افسوس ہے کہ وطن عزیز میں کتاب کی محبت دن بدن کم ہوتی جاتی ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں قارئین کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اس کے مقابلے میں مغرب میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں شائع اور فروخت ہوتی ہیں۔ ٹیلی ویژن اور دیگر الیکٹرانک میڈیا نے قیامِ پاکستان کے بعد ہماری تین نسلوں کی تعمیر شخصیت میں کوئی حصہ نہیں لیا اس لیے کہ
جهان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
که سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
ہماری نئی نسل کی شخصیت اور کردار کی پختگی صرف اس صورت ممکن ہے کہ ہم انہیں کتاب کی طرف راغب کریں، کتاب علم کا دروازہ ہے اور شہر علم سے روشناس ہونے کے لیے کتاب ہی سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ فروغ کتاب، فروغ علم و ادب کے لیے ایک تحریک شروع ہونی چاہیے۔ انقلاب بذریعہ کتاب۔ کتاب سے محبت کیجیے، پاکستان سے محبت کیجیے۔