ہفتہ, اکتوبر 5, 2024

بلوچستان اور دہشت گردی کی جنگ

ایک بنیادی بات یہ سمجھنی ہوگی کہ پاکستان میں دہشت گردی کوئی صوبائی مسئلہ نہیں اور نہ ہی یہ امن و آمان کی صورتحال سے جڑا مسئلہ ہے اور اسے اس فریم ورک سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔دہشت گردی ہماری مجموعی ریاست کا ایک بڑا بحران ہے۔انتہا پسندی، شدت پسندی اور پرتشدد رجحانات اور لوگوں کے بنیادی حقوق سمیت متبادل آوازوں کو نہ سننے کا عمل تشدد کی پالیسی کو تقویت دیتا ہے۔ نیشنل سیکورٹی پالیسی ہو یا نیشنل ایکشن پلان یا پیغام پاکستان سمیت قومی اور صوبائی و ضلعی سطح پر اپیکس کمیٹیوں کی تشکیل جس میں سیاسی اور انٹیلی جنس اداروں سمیت دیگر اداروں کی موجودگی کے باوجود دہشت گردی کم نہیں بلکہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔حالیہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی جس میں لسانی رنگ نمایاں ہوا ورموسی خیل میانوالی پنجاب میں فرقہ وارانہ رنگ کا غالب ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر ریاستی نظام سے دہشت گردی کو روکنے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔

بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی سمیت انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ ہے۔ ایک طرف بلوچستان میں سیاسی،جمہوری،قانونی اور آئینی فریم ورک میں بلوچستان کے حقوق پر جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں ان کو بھی ہم مختلف سازشی تھیوریوں کی بنیاد پر ملک دشمنی کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ جنہوں نے ریاست کے خلاف بندوق اٹھائی ہوئی ہے دونوں کے خلاف حکمت عملی میں تضاد کے پہلو نمایاں ہیں۔ بلوچستان ہی نہیں بلکہ خیبر پختونخواہ میں بھی شورش زیادہ ہے اور ایسے لگتا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ریاست کی ناکامی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب ریاستی و حکومتی نظام داخلی سیاست میں الجھ کر رہ جائے گا اور ہم سیاسی انتقام کی بنیاد پر سیاسی فیصلے کریں گے تو سیکورٹی اور لوگوں کے جان ومال کا تحفظ ہماری ترجیحات میں کمزور ہوجائے گا۔ اس وقت قومی سیاست کی سطح پر سیاسی دشمنی کا رنگ غالب ہے اور ہم سیاسی مخالفین سے سیاسی بنیادوں پر جنگ لڑنے کی بجائے طاقت کے زور پر ان کو کچلنا کی خواہش رکھتے ہیں اور اسی بنیادوں پر اپنی حکمت عملی طے کررہے ہیں۔

اس کا نتیجہ ریاستی و حکومتی نظام میں جو خلا پیدا ہوتا ہے یا جو خلیج پیدا ہورہی ہے وہ ہر صورت دہشت گردوں کو موقع دیتی ہے کہ وہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرکے اپنی رٹ کو مضبوط بنائیں۔ اس لیے اس مسئلہ ریاستی و حکومتی سطح پر درست ترجیحات کا ہے اور اگر ہم نے دہشت گردی یا سیکورٹی کے مسائل پر سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈ ونچرز کے کھیل کو جاری رکھا تو ُپھر یاد رکھیں دہشت گردی کی جنگ میں ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ تھیوری بھی یہاں جو دہشت گردی ہورہی ہے اس میں بھارت ملوث ہے اور اگر یہ منطق درست ہے تو تب بھی یہ ہماری داخلی پالیسیوں اور ناکا م حکمت عملیوں سے جڑی ہوئی بات ہے کہ ہم دشمن کی حکمت عملیوں کا موثر اور کامیاب جواب دینے میں ناکام ہیں۔ اس لیے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کیے بغیر ہم دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ نہیں جیت سکیں گے۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب