پیر, نومبر 25, 2024

ریاست کا بحران اور ممکنہ حل


پاکستان کا مسئلہ سیاسی او ر معاشی یقینا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر بڑا بحران ریاست کا بحران ہے۔کیونکہ سیاست اور ریاست کے درمیان جاری سیاسی یا طاقت کے حصول یا طاقت کی بالادستی کی کشمکش کے کھیل نے سب فریقین کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کردیا ہے۔ سب فریقین آئین و قانون کی حکمرانی سے زیادہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق طاقت چاہتے ہیں۔ ریاست سے جڑے اداروں نے قومی سیاست پر غلبہ حاصل کررکھا ہے اور عملی طور پر ہماری سیاست،جمہوریت، آئین و قانون سمیت عام آدمی یرغمال نظر آتے ہیں۔ فوج اور عدلیہ کے درمیان ٹکراو کی جنگ، حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ میں بظاہر نظر آنے والا سیم پیچ میں موجود بداعتمادی کا ماحول، حکومت و اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ عمران خان کا ٹکراو اور میڈیا کو ریاستی طاقت سے کنٹرول کرنے کے عمل نے ہمیں سیاسی وجمہوری منز ل سے دورکردیا ہے۔ سیاست ہو یا ملکی جمہوریت یا میڈیا سمیت سول سوسائٹی کی جگہ کمزور بھی ہورہی ہے اور ان کی آوازوں کو دبایا جارہا ہے یا ان کو بڑی طاقت کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ سیاسی طاقتوں سمیت دیگر طبقہ یعنی میڈیا اور سول سوسائٹی نے بھی بڑی طاقت کو تسلیم کرلیا ہے اور ان کے بقول ان کو عملی طور پر طاقت کے مراکز سے جو کچھ ملے گا اسی پر ان کو گزراکرنا ہوگا۔

لیکن سیاسی طاقتیں اقتدار کے نشے میں بھول رہی ہیں کہ دنیا میں بہت کچھ بدل رہا ہے۔ دنیا کی نئی نسل سوالات بھی کررہی ہے اور موجودہ سیاسی و معاشی نظام کو چیلنج کرکے اپنا مزاحمت کا عمل بھی دکھارہی ہے۔لوگ فرسودہ،روائتی اور خاندانی نظام سے نالاں ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ اس موجودہ نظام میں ان کی حیثیت کچھ نہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑ رہی ہے اور جو باقی بچے ہیں وہ آواز بھی اٹھارہے ہیں اور کچھ حد تک مزاحمت بھی دکھارہے ہیں۔ سیاسی گھٹن اور معاشی بدحالی کا دور موجودہ نظام اور اس سے جڑے سیاسی یا غیر فریقوں کو کمزور بھی کررہا ہے اور نظام کی ساکھ پر سوالات بھی اٹھارہا ہے۔ آج کی جدید دنیا کے ریاستی نظاموں میں ہمارے جیسے نظاموں کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی اس نظام کی کسی بھی سطح پرداخلی یا خارجی قبولیت ہوگی۔

اگر اس نظام کو آگے بڑھانا ہے اور ریاست سمیت حکومت نے عوام میں موجود اپنی خلیج کو کم کرناہے تو ہمیں اس نظام کی سرجری کی طرف ہی بڑھنا ہوگا۔اگر یہ جنگ آئین،قانون سمیت سیاست و جمہوریت کے دائرہ کار میں ہوگی تو اس میں ریاست اور معاشرہ دونوں کا بھلا ہوگا وگرنہ دوسری صورت میں اس ملک کی سیاست،جمہوریت اور معیشت سمیت سیکورٹی کے نظام میں ایک بڑاانتشار پیدا ہوگا اور یہ انتشار ملکی سطح پر ایک بڑے ٹکراو کاسبب بنے گا۔ریاستی اداروں کی باہمی چپقلش یا اقتدار یا طاقت کی کشمکش میں اگر ہم نے ریاستی نظام اور عوامی مفاد کو ترجیح نہ دی توباقی کچھ نہیں بچے گا۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں ہو ں یا اسٹیبلیشمنٹ یا عدلیہ سمیت میڈیا سب ہی ذاتیات اور سیاسی دشمنی پر مبنی سیاست کا شکار ہوگئے ہیں او راس کا نتیجہ ایک بڑے سیاسی انتقام اور ایک دوسرے کو سیاسی محاذ پر قبول نہ کرنے یا طاقت اور ڈنٖڈے کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو ختم کرنے سے جڑا ہوا ہے، یہ ہی ہماری قومی سیاست کا بڑا المیہ ہے۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب