پیر, اگست 11, 2025

یوسف رضا گیلانی کو بڑی قانونی کامیابی، ٹڈاپ کرپشن کیسز سے بری

کراچی: وفاقی انسدادِ بدعنوانی عدالت نے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹڈاپ) کرپشن اسکینڈل کے مزید 9 مقدمات سے بری کر دیا، جس کے بعد وہ اب تک 26 میں سے 13 مقدمات میں بری ہو چکے ہیں۔ یہ فیصلہ اس وقت سنایا گیا جب عدالت میں فریقین کے دلائل مکمل ہوئے اور استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

یوسف رضا گیلانی اور دیگر شریک ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے جعلی کمپنیوں کے ذریعے فریٹ سبسڈی کی مد میں 7 ارب روپے سے زائد کی رقم مبینہ طور پر ہڑپ کی۔ ان مقدمات کی ابتدائی تفتیش 2009 میں شروع ہوئی تھی، جبکہ ایف آئی اے نے باضابطہ طور پر 2013 میں مقدمات درج کیے۔ بعد ازاں 2015 میں گیلانی کو حتمی چالان میں نامزد کیا گیا۔

عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ مقدمات گزشتہ 12 برس سے ان کے خلاف چل رہے تھے، جن کا مقصد صرف سیاسی دباؤ ڈالنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اتنے برسوں کی تاخیر انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے اور یہ تمام الزامات سیاسی نوعیت کے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے بتایا کہ جن مقدمات میں ان پر الزامات لگائے گئے، ان میں پراسیکیوٹر ایک ایسی طالبہ بنی جو پہلے ان کے سامنے پڑھتی تھی۔

انہوں نے صدر آصف علی زرداری کی صحت یا تبدیلی سے متعلق زیرگردش خبروں کو بے بنیاد افواہیں قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ سیاسی سوالات پر گیلانی نے کہا کہ پنجاب میں نئی حکمت عملی کے فیصلے پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت (سی ای سی) کرے گی، اور یہ بھی وہی طے کرے گی کہ حکومت کا حصہ بننا ہے یا نہیں۔

گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ایف آئی اے نے 2013 اور 2014 کے دوران مجموعی طور پر 26 مقدمات دائر کیے تھے جن میں ان کے مؤکل پر 50 لاکھ روپے رشوت لینے کا الزام تھا، مگر کوئی بھی براہِ راست گواہی یا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ ان کے مطابق یہ الزام بھی براہِ راست نہیں، بلکہ ایک تیسرے فرد کے ذریعے لگایا گیا تھا۔ فاروق نائیک نے مزید بتایا کہ باقی 14 مقدمات کی اپیلیں اب ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہیں، جہاں سے جلد فیصلے متوقع ہیں۔

اس عدالتی پیش رفت کے بعد یوسف رضا گیلانی کے خلاف قانونی دباؤ میں بڑی حد تک کمی آئی ہے، اور اس فیصلے کو ان کی سیاسی ساکھ کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب