اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی جانب سے مقدمات کے ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کسی فریق کے قانونی حق کو متاثر نہیں کرنا چاہتی، اس لیے تمام فریقین کی موجودگی میں فیصلہ تحریر کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا، ’’شکر کریں کہ عدالتیں کام کر رہی ہیں۔‘‘ ان ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے، اور کسی کو بھی یہ تاثر نہیں لینا چاہیے کہ عدالتی نظام سست روی یا تعطل کا شکار ہے۔
فواد چوہدری نے 9 مئی کے مقدمات کو یکجا کرنے اور ٹرائل کو حتمی فیصلے تک روکنے کی استدعا کی تھی، جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ مختلف اضلاع میں درج مقدمات کے باعث ملزم کو بارہا استثنا حاصل ہوتا ہے، جس سے مقدمات میں تاخیر پیدا ہو رہی ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے دورانِ سماعت اعتراض کیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس کے میرٹس پر فیصلہ نہیں کیا گیا، بلکہ صرف ناقابل سماعت قرار دے کر اعتراض عائد کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ آئے ہیں۔ تاہم عدالت نے فیصلہ دیا کہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو دیکھنے اور ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار بھی لاہور ہائی کورٹ کے پاس ہی ہے۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اگر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے گی تو وہ دونوں فریقین پر اثرانداز ہو سکتا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہ مقدمہ متعلقہ فورم یعنی لاہور ہائی کورٹ میں ہی طے ہو۔ عدالت نے فواد چوہدری کی اس شکایت کو بھی مسترد کر دیا کہ ان کا ٹرائل رات بارہ بجے تک جاری رہتا ہے، اور ایک بار پھر کہا، ’’شکر کریں عدالتیں کام کر رہی ہیں۔‘‘
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے واضح پیغام ملا ہے کہ عدلیہ قانون کے مطابق مقدمات کی شفاف سماعت کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے، اور سیاسی رہنماؤں کو بھی قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے صبر و تحمل سے عدالتی عمل کا سامنا کرنا ہوگا۔