یروشلم: اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے عندیہ دیا ہے کہ اگر حماس کی جانب سے پیشگی شرائط پوری کی گئیں تو غزہ میں مجوزہ 60 روزہ جنگ بندی کے دوران مستقل امن کے قیام پر بات چیت ممکن ہے۔ تاہم، انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ اسرائیل کسی بھی قیمت پر اپنی سلامتی کے تقاضوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا، اور اگر ضرورت پڑی تو مطلوبہ شرائط پر عمل درآمد کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
نیتن یاہو نے اپنے حالیہ بیان میں کہا: “اگر حماس نے ان 60 دنوں کے دوران ہتھیار نہ ڈالے، غزہ کی حکمرانی سے دستبرداری اختیار نہ کی اور اپنی عسکری صلاحیتوں کو ختم نہ کیا، تو ہم ان تمام شرائط پر عمل درآمد خود کروائیں گے، چاہے اس کے لیے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔”
انہوں نے ان تین شرائط — ہتھیار ڈالنا، حکمرانی سے دستبرداری، اور عسکری صلاحیتوں کا خاتمہ — کو اسرائیل کی “ناقابلِ تبدیل شرائط” قرار دیا، جن کے بغیر مستقل جنگ بندی ممکن نہیں۔ نیتن یاہو کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے بالواسطہ مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری ہیں، جن میں امریکا، قطر اور مصر بطور ثالث شامل ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی جانب سے ایک جانب مذاکرات کی آمادگی کا اظہار اور دوسری جانب سخت شرائط کی وضاحت، اسرائیل کی جانب سے “دباؤ اور لچک” کی ملی جلی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس حکمت عملی کے ذریعے اسرائیل ممکنہ طور پر حماس پر سفارتی اور نفسیاتی دباؤ ڈالنا چاہتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ شرائط ماننے پر مجبور ہو جائے۔
واضح رہے کہ غزہ میں جاری طویل تنازع اور انسانی بحران کے بعد کسی بھی جنگ بندی یا امن معاہدے کو صرف ایک عارضی حل نہیں بلکہ مستقبل کی پائیدار حکمت عملی کا حصہ بنانے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ ایسے میں نیتن یاہو کا تازہ بیان خطے میں سیاسی حرارت کو مزید بڑھا سکتا ہے یا کسی نئے حل کی بنیاد بھی رکھ سکتا ہے، اس کا انحصار آئندہ مذاکرات کی نوعیت پر ہوگا۔