اتوار, اگست 17, 2025

ایران اور امریکہ کے بیچ کشیدگی عروج پر، جوہری مذاکرات پر سوالیہ نشان!

دبئی/پیرس: ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے، خاص طور پر تہران کی یورینیم افزودگی پر سخت موقف اپنانے کے بعد۔ رائٹرز سے بات کرنے والے تین ایرانی ذرائع کے مطابق، اگر جوہری مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو ایران کی مذہبی قیادت کے پاس کوئی واضح متبادل حکمت عملی موجود نہیں ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران ممکنہ طور پر روس اور چین کی جانب مڑ سکتا ہے، تاہم چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ اور روس کی یوکرین میں مصروفیت کی وجہ سے یہ متبادل حکمت عملی بھی غیر یقینی نظر آتی ہے۔

ایک سینئر ایرانی اہلکار نے کہا، “ہم اپنی موجودہ حکمت عملی جاری رکھیں گے۔ ہم کشیدگی میں اضافہ نہیں کریں گے لیکن دفاع کے لیے مکمل تیار ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ ایران اپنے اتحادی ممالک روس اور چین کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے پر توجہ دے گا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کی مطالبات کو “انتہائی اور ناقابل قبول” قرار دیتے ہوئے مذاکرات سے مثبت نتائج کے امکانات کم بتائے ہیں۔

ایران کا موقف ہے کہ وہ نہ تو اپنا یورینیم ملک سے باہر بھیجے گا اور نہ ہی بیلسٹک میزائل پروگرام پر بات چیت کرے گا۔ مذاکرات کا اگلا دور جمعہ 23 مئی کو روم میں ہوگا، جس کا اعلان عمان کے وزیر خارجہ نے کیا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے سے علیحدگی اور “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی دوبارہ نافذ کرنے نے ایران پر اقتصادی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ایران کے پاس اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے نئی ڈیل کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔

اس وقت ایران معاشی مشکلات، بجلی اور پانی کی قلت، کرنسی کی قدر میں کمی، علاقائی اتحادیوں کے فوجی نقصانات، اور اسرائیلی حملوں کے خدشات کا سامنا کر رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پابندیاں نہ ہٹیں اور تیل کی آزادانہ فروخت ممکن نہ ہوئی تو معیشت کی بحالی ناممکن ہوگی۔ ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب